منگل 30 ستمبر 2025 - 07:32
بیتِ مرجعیت میں ایک خاموش کردار

حوزہ/کسی شخص کا ترقی کے بام و در کو چھونا، آسمانِ شہرت کا آفتاب قرار پانا، ملتِ تشیع کے لیے مرجعیتِ عُظمیٰ کی حیثیت کا امین قرار پانا—یہ سب اپنی محنت و مشقت کے ساتھ ساتھ اُس خاتونِ خانہ کے سکون و صعوبت او اطمینان و اضطراب کا بھی مرہونِ منت ہوتا ہے جس نے راہ میں رکاوٹ بننے کے بجائے راہوں کے کانٹوں کو اپنے کردار کی ہواؤں سے برطرف کیا ہو، عبادت و ریاضت میں، رہبری و سرداری میں جو معاونت کا فریضہ انجام دیتی رہی ہو، حصولِ علم سے نشرِ علم تک کے سارے سفر میں ہمسفر بنی رہی ہو۔

تحریر : مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| نا شناختہ شخصیتیں، جو عظمتوں کے آشیانوں میں بود و باش اختیار کئے ہوئے ہوں، ان پر خامہ‌ فرسائی کرنے کے لیے جن جہتوں کا انتخاب عقلِ سلیم اور فکرِ سلیم کرتی ہے وہ حقیقت میں نسبتوں کی وہ سُوئیاں ہوتی ہیں جن میں منقبتوں کے دھاگے پرو کر شخصیتوں کے چادرِ کردار پر گل بوٹے بنائے جاتے ہیں اور اس طرح پھولوں کے حسن و جمال میں موجود خوشبووں کا بسیرا محسوس کر لیا جاتا ہے۔ کسی شخص کا ترقی کے بام و در کو چھونا، آسمانِ شہرت کا آفتاب قرار پانا، ملتِ تشیع کے لیے مرجعیتِ عُظمیٰ کی حیثیت کا امین قرار پانا—یہ سب اپنی محنت و مشقت کے ساتھ ساتھ اُس خاتونِ خانہ کے سکون و صعوبت او اطمینان و اضطراب کا بھی مرہونِ منت ہوتا ہے جس نے راہ میں رکاوٹ بننے کے بجائے راہوں کے کانٹوں کو اپنے کردار کی ہواؤں سے برطرف کیا ہو، عبادت و ریاضت میں، رہبری و سرداری میں جو معاونت کا فریضہ انجام دیتی رہی ہو، حصولِ علم سے نشرِ علم تک کے سارے سفر میں ہمسفر بنی رہی ہو، جبکہ مسند مرجعیت پر قدم رکھنے سے پہلے یا یوں کہوں کے یہ کانٹوں بھرا تاج ماتھے پر سجانے سے پہلے سینکڑوں فقہی مسائل کی باریک بینی،دلائلِ قرآنی و حدیثی کی تہہ در تہہ تحقیق،فقہاء سلف کی آراء کا تقابلی مطالعہ، اور جدید سوالات کا اجتہادی حل۔یہ مرحلہ کم از کم ۱۵ تا ۲۰ سال کی محنت مانگتا ہے،

جہاں طالبِ علم آہستہ آہستہ مجتہد کے مقام تک رسائی پاتا ہے۔

مرجعیت صرف عقل کا کمال نہیں،یہ روح کا جلال بھی چاہتی ہے۔راتوں کی تنہائیوں میں عبادت،دنوں کی خاک چھاننے والی ریاضت،اخلاص، قناعت، تقویٰ اور معاشرتی خدمت۔ یہ سب اس علم کے پیکر کو نورانی وقار عطا کرتے ہیں۔ سینکڑوں شاگرد تیار کرنا،کتب و رسائل تصنیف کرنا—یہ سب اُس علمی گواہی کے طور پر شمار ہوتے ہیں جو امت کے دلوں میں اعتماد جگاتی ہے۔

مرجعیت کوئی امتحان پاس کرنے کا سرٹیفکیٹ نہیں،بلکہ امت کا اعتماد اور انتخاب ہے۔

علما کی گواہی، عوام کی قبولیت،اور زمانے کے پیچیدہ مسائل کا اجتہادی جواب دینے کی صلاحیت، یہی وہ روشنی ہے جسے "مرجعیتِ عُظمیٰ" کہا جاتا ہے۔ یوں ایک مرجعِ تقلید کی زندگی اکثر چالیس سے پچاس سال کی علمی ریاضت،ہزاروں صفحات کی تحقیق،اور گنتی سے باہر شاگردوں کی تربیت کے بعد اس مقام تک پہنچتی ہے کہ اسے مرجعیتِ عُظمیٰ کے شایانِ شان سمجھا جائے۔جہاں انسان اپنی خواہشات قربان کر کے علم کو اپنا سرمایہ اور عبادت کو اپنا زادِ سفر بنا لیتا ہے یہ وہ سنگلاخ مگر نورانی راہ ہے جہاں قلم کی روشنائی، دل کی پاکیزگی اور عقل کی گہرائی ایک ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں،اور ایک انسان "فقیہِ وقت" سے بڑھ کرامت کی امانت بن کر ابھرتا ہے اور اس میں زوجہ کا برابر کا حصہ ہوتا ہے وہ اپنے حصے کا تمام وقت شوہر کی راہ میں قربان کردیتی ہے اور اسکی یہ خاموش قربانی ہے جو شوہر کو شہرت کے بام در پر پہونچاتی ہے دوسری طرف بحثیت ماں اپنی آغوشِ تربیت میں جن بیٹوں کو جنم دیا، اُن کو بھی پروان چڑھا کر اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلانے کی مساعیِ جمیلہ کو کسی طرح بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ مرحومہ کی جلالتِ قدر کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شوہر کی ضعیفی میں بھی اُن کا مکمل خیال رکھنا، جبکہ خود بھی ضعف و نقاہت کا فطری جامہ زیبِ تن کیے ہوئے تھیں، پھر بھی شوہر کی ہر طرح سے خدمت، بچوں کی اخلاقی تربیت، گھر کو جنت نما ماحول بنانا تاکہ کسی طرح کے شجرِ ممنوعہ کی قربت قربِ الٰہی سے دور نہ کر دے—یہ سب اُن کے کردار کا حصہ تھا۔اور اپنے شجرِ تمنا پر جو گل مسکرائے، اُس کے تبسم سے علم و ہنر کی چمک دمک اس طرح ظاہر ہو گئی کہ دندانِ یاقوت صفت کا نظارہ وادیِ علم و ہنر نے نہایت خوبی سے دیکھنا شروع کر دیا۔ خانگی کردار کا عکسِ جمیل قرار پانا، ماں کے وجود میں سایۂ احساس کی تکمیل قرار پانا، اور شوہر کے قلب و نظر کے لیے اپنی تعبیرِ حیات سے تقدیر کو جوڑ ے رکھنا—یہ سب مرحومہ کی زندگی کے روشن پہلو ہیں۔زندگی کی تمام تر آسودگیوں میں لبوں پر تبسم بکھیرے رکھنا، اور ہر محاذِ حیات پر محور صبر و رضا پیکرِ اخلاص و وفا میں اس طرح ڈھل کر رہنا کہ شوہر کی مکمل نازبرداریاں ہوتی رہیں تاکہ شوہر کے فریضے کی ادائیگی میں ذرّہ برابر بھی کمی یا خامی نہ آنے پائے—یہ ایک زوجہ کے لیے نہایت سنگین امر ہے۔ گمنامی کے اندھیروں میں رہ کر علم کے آفتابوں کو جلا بخشنا، چراغ تلے کی خاموش تاریکی میں رہتے ہوئے اپنے شعور کو بیدار رکھنا، شہرت کے بیتِ عدن میں رہنے کے باوجود بھی گمنام بن کر زمینِ زندگی پر قدم رکھ کر اسے گزار دینا کسی عظیم قربانی کا پیش خیمہ ہوتا ہے جس کا ادراک شعور کا کوتاہ قلم ہرگز نہیں کر سکتا۔

نجفِ اشرف کی وہ مقدس سرزمین جہاں کی فضاؤں میں علم کی خوشبوئیں بکھری ہوئی ہوں، ہواؤں میں تربیت کا رنگ اور ماحول میں صبر و رضا کے جل ترنگ پیمانے ہوں، اور عبرتوں کے حالات میں خطروں کے زمانے میں مطمئن رہنا اور دوسروں کو مطمئن کرتے رہنا—اس کے لیے جس جگر کی ضرورت تھی وہ مرحومہ کے پاس یقینا موجود تھا۔ تبھی تو آپ کی آغوشِ تربیت میں پلنے والے علم و ہنر کے اس کمال کو پہنچے کہ باپ کے ساتھ رہتے ہوئے بحثِ خارج ایک زمانے سے دیتے رہے۔ یہ مرحومہ کی تربیت کا مکمل اثر ہے جو وقت کے علماء کے لہجوں سے ادا ہو رہا ہے۔

بارگاہِ رب العزت میں دعا گو ہیں کہ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے، جوارِ رحمت میں جگہ عنایت فرمائے، اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، بالخصوص آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی دام ظلہ الوارف اور ان کے فرزندوں کو کریم پروردگار صبرِ جمیل اور اجرِ جزیل مرحمت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha