تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی| جس طرح ظلم کرنا برا ہے اسی طرح ظالم کی مدد کرنا بھی برا ہے بلکہ معصومین علیہم السلام کی احادیث کی روشنی میں ظالم کی مدد کرنے والا اور اس کے ظلم پر خاموش رہنے والا ظالم کا ساتھی ہے اور اس کے ظلم میں شریک ہے۔
ذیل میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: "وَ إِيَّاكُمْ وَ صُحْبَةَ الْعَاصِينَ وَ مَعُونَةَ الظَّالِمِين." (الوسائل کتاب التجارة ابواب مایکتسب، باب 42، ح 1.)
خبردار! گناہگاروں کی ہم نشینی اور ظالموں کی مدد سے بچو۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "الْعَامِلُ بِالظُّلْمِ، وَ الْمُعِينُ لَهُ، وَ الرَّاضِي بِهِ، شُرَكَاءُ ثَلَاثَتُهُمْ" (الوسائل باب 42، من ابواب ما یکتسب به ح 2.)
جو شخص ظلم کرتا ہے اور جو اس کی مدد کرتا ہے اور جو اس ظلم پر راضی اور خوش ہے — تینوں اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔
"سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنْ أَعْمَالِهِمْ فَقَالَ لِي يَا أَبَا مُحَمَّدٍ لَا وَ لَا مَدَّةَ قَلَمٍ إِنَّ أَحَدَهُمْ لَا يُصِيبُ مِنْ دُنْيَاهُمْ شَيْئاً إِلَّا أَصَابُوا مِنْ دِينِهِ مِثْلَهُ أَوْ قَالَ حَتَّى يُصِيبُوا مِنْ دِينِهِ مِثْلَهُ. (المصدر المذکور، ح 5)
جناب ابو بصیر سے روایت ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ ظالم حکمرانوں (یعنی بنی اُمیہ یا عام طور پر ظالموں) کے لئے کام کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
تو آپ نے فرمایا: نہیں، اے ابومحمّد! (جناب ابوبصیر کی کنیت ہے) — جو بھی ان کی دنیا (یعنی حکومت و دولت) سے ذرا سا بھی فائدہ اٹھائے، چاہے وہ صرف قلم کی سیاہی یا نوک کے برابر ہی کیوں نہ ہو، تو وہ اپنے دین میں بھی اتنا ہی نقصان اٹھائے گا اور اس کا دین اسی قدر ناقص ہو جائے گا۔
کذا و لعلّه مصحّف جهم بن حکیم الذی نصّ النجاشی علی وثاقتة فی المحکّی عن فهرسته فیکون السند معتبراً و امّا جهم بن حمید فهو الرؤاسی المذکور فی رجال الشیخ من اصحاب الصادق ظاهراً.
اسی طرح مرحوم کلینی نے متصل سند کے ساتھ جَهم بن حمید سے روایت نقل کی ہے کہ: "قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ. أَمَا تَغْشَى سُلْطَانَ هَؤُلَاءِ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ وَ لِمَ قُلْتُ فِرَاراً بِدِينِي قَالَ فَعَزَمْتَ عَلَى ذَلِكَ؟ قُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ لِي الْآنَ سَلِمَ لَكَ دِينُكَ." (الوسائل، کتاب التجارة، باب 42، من ابواب مایکتسب به ح7.)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے پوچھا: "کیا تم ان (ظالم حکمرانوں) کے سرکاری اور دفتری کاموں میں شریک نہیں ہوتے؟ میں نے عرض کیا: "نہیں" تو حضرتؑ نے پوچھا: "کیوں؟" میں نے عرض کیا: "اپنے دین کی حفاظت کے لئے۔" امام نے فرمایا: "کیا تم نے اس فیصلے پر پختہ ارادہ کر لیا ہے؟ میں نے عرض کیا: "جی ہاں۔" تو آپ نے فرمایا: "اب تمہارا دین تمہارے لئے محفوظ اور سلامت ہو گیا۔"
عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عِيَاضٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَشْيَاءَ مِنَ الْمَكَاسِبِ فَنَهَانِي عَنْهَا فَقَالَ يَا فُضَيْلُ وَ اللَّهِ لَضَرَرُ هَؤُلَاءِ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ أَشَدُّ مِنْ ضَرَرِ التُّرْكِ وَ الدَّيْلَمِ قَالَ وَ سَأَلْتُهُ عَنِ الْوَرِعِ مِنَ النَّاسِ قَالَ الَّذِي يَتَوَرَّعُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ يَجْتَنِبُ هَؤُلَاءِ وَ إِذَا لَمْ يَتَّقِ الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ وَ هُوَ لَا يَعْرِفُهُ وَ إِذَا رَأَى الْمُنْكَرَ فَلَمْ يُنْكِرْهُ وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهِ فَقَدْ أَحَبَّ أَنْ يُعْصَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُعْصَى اللَّهُ فَقَدْ بَارَزَ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ بِالْعَدَاوَةِ وَ مَنْ أَحَبَّ بَقَاءَ الظَّالِمِينَ فَقَدْ أَحَبَّ أَنْ يُعْصَى اللَّه. (الوسائل، باب 37 من ابواب الامر و النهی، ح 6.)
اسی طرح مرحوم کلینی نے متصل سند کے ساتھ سلیمان بن داؤد منقری سے اور وہ فضیل بن عیاض سے روایت نقل کرتے ہیں کہ: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے بعض روزی کمانے والے پیشوں کے بارے میں سوال کیا۔
تو حضرتؑ نے مجھے ان سے منع فرمایا اور فرمایا: "اے فضیل! خدا کی قسم، ان لوگوں (یعنی بنی اُمیہ، یا عام طور پر غاصب خلفاء، یا ان کے ساتھ تعاون کرنے والے علماء) کا نقصان اس امت کے لئے ترک اور دیلم (کافروں اور مشرکوں) کے نقصان سے بھی زیادہ سخت ہے۔" میں نے عرض کیا: "صاحبِ ورع (پرهیزگار شخص) کون ہے؟" حضرتؑ نے فرمایا: "وہ شخص جو خدا کی حرام کردہ چیزوں سے اور ان لوگوں (ظالموں) سے تعلق رکھنے سے پرہیز کرے۔" (اور آخر میں فرمایا:) "جو شخص ظالموں کی بقاء چاہے تو وہ درحقیقت یہ چاہتا ہے کہ خدا کی نافرمانی کی جائے۔"
قال الصادق عليه السلام: مَنْ سَوَّدَ اسْمَهُ فِي دِيوَانِ الْجَبَّارِينَ مِنْ وُلْدِ فُلَانٍ حَشَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِنْزِيراً. (الوسائل کتاب التجارة، باب 42.)
مرحوم شیخ طوسی نے تہذیب میں متصل سند کے ساتھ یعقوب بن یزید سے، جو سبط ولید بن صبیح کاہلی سے روایت کرتے ہیں، نقل کیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص اپنا نام بنی عباس کے دیوان میں درج کروائے، یعنی ان کے ملازمین اور تنخواہ لینے والوں کی فہرست میں شامل ہو، قیامت کے دن اسے سور کی شکل میں اٹھایا جائے گا۔"
قَالَ الصادق علیه السلام: لَا تُعِنْهُمْ عَلَى بِنَاءِ مَسْجِدٍ. (الوسائل، الباب المذکور، ح 8.)
اسی طرح مرحوم شیخ طوسی نے تہذیب میں معتبر سند کے ساتھ یونس بن یعقوب سے روایت نقل کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: "ان (یعنی بنی عباس کے حکمرانوں) کی کسی مسجد کی تعمیر یا عمارت میں مدد نہ کرو۔"
عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ صَبِيحٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ فَاسْتَقْبَلَنِي زُرَارَةُ خَارِجاً مِنْ عِنْدِهِ فَقَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ يَا وَلِيدُ أَ مَا تَعْجَبُ مِنْ زُرَارَةَ سَأَلَنِي عَنْ أَعْمَالِ هَؤُلَاءِ أَيَّ شَيْءٍ كَانَ يُرِيدُ أَ يُرِيدُ أَنْ أَقُولَ لَهُ لَا فَيَرْوِيَ ذَلِكَ عَنِّي ثُمَّ قَالَ يَا وَلِيدُ مَتَى كَانَتِ الشِّيعَةُ تَسْأَلُ عَنْ أَعْمَالِهِمْ إِنَّمَا كَانَتِ الشِّيعَةُ تَقُولُ يُؤْكَلُ مِنْ طَعَامِهِمْ وَ يُشْرَبُ مِنْ شَرَابِهِمْ وَ يُسْتَظَلُّ بِظِلِّهِمْ. (الوسائل، کتاب التجارة ابواب مایکتسب به، باب 45 ح 1.)
اسی طرح مرحوم کلینی نے معتبر سند کے ساتھ ولید بن صبیح سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس موقع پر میں نے زراره کو دیکھا جو حضرتؑ کی خدمت سے واپس جا رہے تھے۔ پھر امامؑ نے مجھ سے فرمایا: "اے ولید! کیا تم زراره پر حیران نہیں ہوتے؟ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ موجودہ حکومتی امور میں شرکت کرنا کیسا ہے؟ واقعی اس کا مقصد کیا ہے؟ کیا وہ یہ چاہتا ہے کہ میں منفی جواب دوں اور پھر وہ اسے نقل کرے، یا دوسروں سے نقل کروایا جائے؟" اس کے بعد حضرتؑ نے فرمایا: "اے ولید! کب اور کس وقت شیعہ ان کے امور میں شامل ہونے کے بارے میں سوال کرتے تھے؟" (یعنی یہ حرمت اس قدر واضح تھی کہ سوال کی ضرورت ہی نہ تھی) اور حضرتؑ نے فرمایا کہ شیعہ پہلے صرف یہ سوال کرتے تھے:
"کیا ان کا کھانا کھایا جا سکتا ہے؟ کیا ان کے مشروبات پئے جا سکتے ہیں؟ اور کیا ان کے درختوں کے سائے یا عمارتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟"
مرحوم شیخ کشی نے بھی مذکورہ حدیث کو اپنی کتاب رجال میں نقل کیا ہے۔ (رجال کشی، ص 152، ح 247)
سُئِلَ عَنْ عَمَلِ السُّلْطَانِ يَخْرُجُ فِيهِ الرَّجُلُ قَالَ لَا إِلَّا أَنْ لَا يَقْدِرَ عَلَى شَيْءٍ وَ لَا يَأْكُلَ وَ لَا يَشْرَبَ وَ لَا يَقْدِرَ عَلَى حِيلَةٍ فَإِنْ فَعَلَ فَصَارَ فِي يَدِهِ شَيْءٌ فَلْيَبْعَثْ بِخُمُسِهِ إِلَى أَهْلِ الْبَيْتِ. (الوسائل، باب 48، من ابواب ما یکتسب به ح 3)
اسی طرح مرحوم شیخ طوسی نے تہذیب میں ایک سند کے ساتھ، جو ظاہراً معتبر اور موثق ہے، عمّار (ساباطی) سے روایت نقل کیا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا: حکومتی دفاتر میں شرکت یا ملازمت کے بارے میں کیا حکم ہے؟ تو حضرتؑ نے اجازت نہیں دی اور فرمایا: "نہیں، سوائے اس کے کہ وہ شخص اتنی شدید پریشانی میں ہو کہ اس کے پاس کھانے پینے اور لباس کے لئے کچھ نہ ہو اور کمانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو۔" پھر فرمایا: "اگر وہ ان کے دفاتر میں ملازم ہو جائے اور وہاں سے اسے کوئی مال حاصل ہو تو اس کا خمس اہل بیت علیہم السلام کو پہنچائے۔"
قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا مَا تَقُولُ فِي أَعْمَالِ السُّلْطَانِ فَقَالَ يَا سُلَيْمَانُ الدُّخُولُ فِي أَعْمَالِهِمْ وَ الْعَوْنُ لَهُمْ وَ السَّعْيُ فِي حَوَائِجِهِمْ عَدِيلُ الْكُفْرِ وَ النَّظَرُ إِلَيْهِمْ عَلَى الْعَمْدِ مِنَ الْكَبَائِرِ الَّتِي يُسْتَحَقُّ به [بِهَا] النَّارُ. (الوسائل، ب 45 من ابواب ما یکسب به ح 12.)
نیز جناب ابوالنضر محمد بن مسعود عیّاشی نے اپنی تفسیر میں سلیمان جعفری سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں نے امام علی رضا علیہ السلام سے عرض کیا: "حاکم کے کاموں (حکومتی امور) کے بارے میں آپ کا کیا فرمان ہے؟" تو حضرتؑ نے فرمایا: "اے سلیمان! ان کے کاموں میں شرکت کرنا، ان کی مدد کرنا اور ان کی خواہشات کی راہ میں سعی و کوشش کرنا کفر کے برابر ہے اور جان بوجھ کر ان کو دیکھنا گناہان کبیرہ میں سے ہے جو جہنم کے مستحق ہونے کا باعث بنتا ہے۔"
قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ زِيَادٌ الْقَنْدِيُ فَقَالَ لَهُ يَا زِيَادُ وُلِّيتَ لِهَؤُلَاءِ قَالَ نَعَمْ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ لِي مُرُوَّةٌ وَ لَيْسَ وَرَاءَ ظَهْرِي مَالٌ وَ إِنَّمَا أُوَاسِي إِخْوَانِي مِنْ عَمَلِ السُّلْطَانِ فَقَالَ يَا زِيَادُ امّا إِذَا كُنْتَ فَاعِلًا ذَلِكَ فَإِذَا دَعَتْكَ نَفْسُكَ إِلَى ظُلْمِ النَّاسِ عِنْدَ الْقُدْرَةِ عَلَى ذَلِكَ فَاذْكُرْ قُدْرَةَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَى عُقُوبَتِكَ وَ ذَهَابَ مَا أَتَيْتَ إِلَيْهِمْ عَنْهُمْ وَ بَقَاء مَا أَتَيْتَ إِلَى نَفْسِكَ عَلَيْكَ، وَ السَّلَامُ. (امالی شیخ طوسی، م 11، ح 49، ص 303.)
اسی طرح مرحوم شیخ طوسی نے امالی میں متصل سند کے ساتھ ابوقتادة قمی سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس تھا کہ زیاد القندی ان کے خدمت میں حاضر ہوئے۔ امامؑ نے ان سے فرمایا: "اے زیاد! کیا تم حکومت کے کارندے ہو گئے ہو؟" زیاد نے عرض کیا: "جی ہاں فرزند رسول! میرے پاس عزت و مرتبہ ہے، لیکن مال و دولت میرے پاس نہیں ہے، اور میں جو کچھ سرکاری امور سے حاصل کرتا ہوں، اسے اپنے بھائیوں کے ساتھ بانٹتا ہوں۔" پھر حضرتؑ نے فرمایا:
"اے زیاد! اگر تم ایسا کرتے ہو، اور تمہارا نفس تمہیں لوگوں پر ظلم کرنے پر آمادہ کرے—جب تمہارے پاس طاقت ہو—تو اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کے عذاب کو یاد رکھو، اور یاد رکھو کہ جو کچھ تم نے لوگوں سے حاصل کیا وہ تم سے جاتا رہے گا، اور جو بوجھ تم نے اپنے اوپر ڈالا ہے وہ تمہارے ساتھ باقی رہے گا۔"
قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى۔ فَقَالَ لِي يَا زِيَادُ إِنَّكَ لَتَعْمَلُ عَمَلَ السُّلْطَانِ قَالَ قُلْتُ أَجَلْ قَالَ لِي وَ لِمَ قُلْتُ أَنَا رَجُلٌ لِيَ مُرُوَّةٌ وَ عَلَيَّ عِيَالٌ وَ لَيْسَ وَرَاءَ ظَهْرِي شَيْءٌ فَقَالَ لِي يَا زِيَادُ لَأَنْ أَسْقُطَ مِنْ حَالِقٍ فَأَتَقَطَّعَ قِطْعَةً قِطْعَةً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَوَلَّى لِأَحَدٍ مِنْهُمْ عَمَلًا أَوْ أَطَأَ بِسَاطَ رَجُلٍ مِنْهُمْ إِلَّا لِمَا ذَا قُلْتُ لَا أَدْرِي قَالَ إِلَّا لِتَفْرِيجِ كُرْبَةٍ عَنْ مُؤْمِنٍ أَوْ فَكِّ أَسْرِهِ أَوْ قَضَاءِ دَيْنِهِ يَا زِيَادُ إِنَّ أَهْوَنَ مَا يَصْنَعُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِمَنْ تَوَلَّى لَهُمْ عَمَلًا أَنْ يُضْرَبَ عَلَيْهِ سُرَادِقٌ مِنْ نَارٍ إِلَى أَنْ يَفْرُغَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ حِسَابِ الْخَلَائِقِ يَا زِيَادُ فَإِنْ وُلِّيتَ شَيْئاً مِنْ أَعْمَالِهِمْ فَأَحْسِنْ إِلَى إِخْوَانِكَ فَوَاحِدَةٌ بِوَاحِدَةٍ وَ اللَّهُ مِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ يَا زِيَادُ أَيُّمَا رَجُلٍ مِنْكُمْ تَوَلَّى لِأَحَدٍ مِنْهُمْ عَمَلًا ثُمَّ سَاوَى بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُمْ فَقُولُوا لَهُ أَنْتَ مُنْتَحِلٌ كَذَّابٌ (الکافی، ج 5، کتاب المعیشة، باب 31، ح1.)
مرحوم کلینی نے متصل سند کے ساتھ زیاد بن ابی سلمہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، تو حضرتؑ نے مجھ سے فرمایا:
"اے زیاد! کیا تم واقعی حکومت میں ملازم ہو گئے ہو؟" میں نے عرض کیا: "جی ہاں۔" حضرتؑ نے فرمایا: "کیوں؟" میں نے عرض کیا: "کیونکہ میرے پاس عزّت و مرتبہ ہے، لیکن کوئی ذریعہ اور سہارا نہیں ہے، کچھ لوگ میرے زیر کفالت ہیں اور مالی طور پر پریشانی میں ہوں۔" حضرتؑ نے فرمایا: "اے زیاد! میں چاہوں تو اونچے پہاڑ سے گر کر بکھر جاؤں، لیکن میں یہ زیادہ پسند کروں گا کہ میں ان کے دربار میں ملازم ہوں، ان کے یہاں کوئی عہدہ حاصل کروں، یا ان کے کسی دفتر میں قدم رکھوں، سوائے اس کے کہ اس ملازمت سے کسی مومن کے لئے آسانی پیدا ہو، یا اسے قید سے آزاد کروایا جائے، یا اس کا قرض ادا کیا جائے۔" پھر حضرتؑ نے فرمایا: "اے زیاد! سب سے ہلکا عذاب جو اللہ کسی ظالم حکومتی ملازم پر ڈالتا ہے، وہ یہ ہے کہ قیامت میں اس کے لئے آگ کے خیمے نصب کئے جائیں، یہاں تک کہ حساب و کتاب کے امور ختم ہو جائیں۔" حضرتؑ نے مزید فرمایا: "اے زیاد! اگر تم نے کوئی سرکاری کام قبول کیا ہے تو اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ احسان و نیکی کرو تاکہ یہ ایک اچھا عمل اس ناشایستہ کام کے اثر کو کم کر دے۔" اور آخر میں فرمایا: "اے زیاد! ہر شخص جس کے ہاتھ میں ان کی کوئی ملازمت آئی اور اس کے بعد وہ اپنے (شیعہ) اور غیر کو ایک نظر سے دیکھتا رہا، تو اس سے کہو: تم نے اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کو اپنے لئے بند کر لیا ہے اور تم بڑے جھوٹے ہو۔"
قَالَ: كَتَبْتُ إِلَيْهِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً أَسْتَأْذِنُهُ فِي عَمَلِ السُّلْطَانِ فَلَمَّا كَانَ فِي آخِرِ كِتَابٍ كَتَبْتُهُ إِلَيْهِ أَذْكُرُ أَنِّي أَخَافُ عَلَى خَبْطِ عُنُقِي وَ أَنَ السُّلْطَانَ يَقُولُ لِي إِنَّكَ رَافِضِيٌ وَ لَسْنَا نَشُكُّ فِي أَنَّكَ تَرَكْتَ الْعَمَلَ لِلسُّلْطَانِ لِلرَّفْضِ فَكَتَبَ إِلَيَّ أَبُو الْحَسَنِ قَدْ فَهِمْتُ كِتَابَكَ وَ مَا ذَكَرْتَ مِنَ الْخَوْفِ عَلَى نَفْسِكَ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّكَ إِذَا وُلِّيتَ عَمِلْتَ فِي عَمَلِكَ بِمَا أَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ثُمَّ تُصَيِّرُ أَعْوَانَكَ وَ كُتَّابَكَ أَهْلَ مِلَّتِكَ فَإِذَا صَارَ إِلَيْكَ شَيْءٌ وَاسَيْتَ بِهِ فُقَرَاءَ الْمُؤْمِنِينَ حَتَّى تَكُونَ وَاحِداً مِنْهُمْ كَانَ ذَا بِذَا وَ إِلَّا فَلَا. (کافی، کتاب المعیشه، باب 31، ح 4.)
مرحوم کلینی نے کافی میں اسناد کے ساتھ حسن بن حسین انباری سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں نے امام علی رضا علیہ السلام سے چودہ سال کے عرصے میں سرکاری ذمہ داری قبول کرنے کے لئے خطوط لکھے اور اجازت طلب کی، یہاں تک کہ آخری خط میں میں نے حضرتؑ کو لکھا: "میں ڈرتا ہوں کہ میری جان کو خطرہ ہو جائے اور لوگ کہتے ہیں کہ تم نے سرکاری ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کی ہے کیونکہ تم رافضی ہو!"
(مختصراً، مجھے رافضی اور شیعہ کہہ کر نشانہ بنایا گیا اور میری جان کو خطرہ لاحق ہے) تو حضرتؑ نے اس کے جواب میں لکھا: "میں نے تمہارے لکھے ہوئے خطوط سے یہ جان لیا کہ تم اپنی جان کے خوف میں ہو، تو اگر تمہیں یقین ہے کہ تم جس سرکاری عہدے کے لئے مقرر کئے جاؤ گے، وہاں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے احکام کے مطابق عمل کرو گے اور اپنے قریبی لوگوں اور خط لکھنے والوں کو اپنی قوم یعنی شیعہ میں سے منتخب کرو گے، اور پھر جو بھی دولت تمہیں حاصل ہو اسے فقراء اور مومنین میں بانٹو گے اور اپنے لئے صرف اتنا رکھو گے جتنا ان کو دیتے ہو (اس سے زیادہ نہیں)، تو اس صورت میں اس عہدے کو قبول کرنا جائز ہے۔ اور اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں، تو تمہیں یہ ذمہ داری قبول کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
قَالَ: كُنْتُ قَاعِداً عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ. عَلَى بَابِ دَارِهِ بِالْمَدِينَةِ فَنَظَرَ إِلَى النَّاسِ يَمُرُّونَ أَفْوَاجاً فَقَالَ لِبَعْضِ مَنْ عِنْدَهُ حَدَثَ بِالْمَدِينَةِ أَمْرٌ فَقَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ وُلِّيَ الْمَدِينَةَ وَالٍ فَغَدَا النَّاسُ يُهَنِّئُونَهُ فَقَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَيُغْدَى عَلَيْهِ بِالْأَمْرِ تَهَنَّأَ بِهِ وَ إِنَّهُ لَبَابٌ مِنْ أَبْوَابِ النَّارِ. (الکافی، کتاب المعیشه باب 30، ح 6.)
مرحوم کلینی نے معتبر اسناد کے ساتھ محمد بن مسلم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں مدینہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کے گھر حاضر ہوا اور دروازے کے کنارے بیٹھا ہوا تھا (شاید دروازہ کھلا ہوا تھا)۔ آپ کی نظر لوگوں پر پڑی جو قطار در قطار آپ کے گھر کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ تو آپ نے اپنے بعض خدام سے فرمایا: "کیا مدینہ میں کوئی نیا واقعہ ہوا ہے؟" عرض کیا گیا: "ہم آپ پر قربان، شہر کا نیا والی اور گورنر آیا ہے اور اب لوگ خوشی اور مبارکباد کے لئے اس کے پاس جا رہے ہیں!" پھر امام نے فرمایا: "یقیناً ایک ایسا شخص جسے لوگ مبارکباد دے رہے ہیں، وہ خود آگ کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔"
قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ. فُلَانٌ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَ فُلَانٌ وَ فُلَانٌ فَقَالَ وَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ قُلْتُ يَسْأَلُونَكَ الدُّعَاءَ فَقَالَ وَ مَا لَهُمْ قُلْتُ حَبَسَهُمْ أَبُو جَعْفَرٍ فَقَالَ وَ مَا لَهُمْ وَ مَا لَهُ قُلْتُ اسْتَعْمَلَهُمْ فَحَبَسَهُمْ فَقَالَ وَ مَا لَهُمْ وَ مَا لَهُ أَ لَمْ أَنْهَهُمْ أَ لَمْ أَنْهَهُمْ أَ لَمْ أَنْهَهُمْ هُمُ النَّارُ هُمُ النَّارُ هُمُ النَّارُ. الی آخره. (الکافی، ج 5، کتاب المعیشة، باب 30، ح 8.)
مرحوم کلینی نے بھی یحییٰ بن ابراہیم بن مهاجر سے متصل اسناد کے ساتھ روایت کی ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے حضور عرض کیا: "فلان و فلان و فلان آپ کو سلام کہتے ہیں۔" تو آپ نے فرمایا: "و علیہم السلام"۔ میں نے عرض کیا: "وہ آپ کے حضور دعا کی درخواست کرتے ہیں۔"
تو آپ نے فرمایا: "کیا ہوا؟ (ان پر کیا مصیبت آئی ہے؟)" میں نے کہا: "ابوجعفر منصور (خلیفہ عباسی) نے انہیں قید کر دیا ہے۔" آپ نے فرمایا: "کس وجہ سے؟ منصور کا ان سے کیا تعلق تھا؟" میں نے عرض کیا: "انہوں نے خلیفہ کے نظام میں ملازمت کی اور پھر قید کر لئے گئے" امام نے فرمایا: "خلیفہ کے ساتھ ان کا کیا معاملہ تھا؟ کیا میں نے انہیں نہیں روکا تھا؟ کیا میں نے نہیں منع کیا تھا؟ کیا میں نے نہیں روکا تھا؟ وہ آگ ہیں؛ وہ آگ ہیں؛ وہ آگ ہیں!"
قَالَ: ذُكِرَ عِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ هَذِهِ الْعِصَابَةِ قَدْ وُلِّيَ وَلَايَةً فَقَالَ كَيْفَ صَنِيعَتُهُ إِلَى إِخْوَانِهِ قَالَ قُلْتُ لَيْسَ عِنْدَهُ خَيْرٌ فَقَالَ أُفٍّ يَدْخُلُونَ فِيمَا لَا يَنْبَغِي لَهُمْ وَ لَا يَصْنَعُونَ إِلَى إِخْوَانِهِمْ خَيْراً. (المصدرالمذکور، باب 31، ح 2.)
مرحوم کلینی نے متصل اسناد کے ساتھ ابوبصیر سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے حضور ایک شخص کا ذکر ہوا جو شیعوں میں سے تھا اور حکومت کا ملازم ہو گیا تھا۔ امام نے فرمایا: "اس شخص کا اپنے (دینی) بھائیوں کے ساتھ کیا تعلق ہے؟" میں نے کہا: "اس میں کچھ بھلا نہیں ہے۔" تو آپ نے فرمایا: "اُف! وہ ایسی ملازمت یا کام میں داخل ہو رہا ہے جو اس کے لئے مناسب نہیں، اور ساتھ ہی اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی کوئی احسان یا نیکی نہیں کرتا۔"
قَالَ: كَانَ لِي صَدِيقٌ مِنْ كُتَّابِ بَنِي أُمَيَّةَ فَقَالَ لِي اسْتَأْذِنْ لِي عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ. فَاسْتَأْذَنْتُ لَهُ عَلَيْهِ فَأَذِنَ لَهُ فَلَمَّا أَنْ دَخَلَ سَلَّمَ وَ جَلَسَ ثُمَ قَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي كُنْتُ فِي دِيوَانِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ فَأَصَبْتُ مِنْ دُنْيَاهُمْ مَالًا كَثِيراً وَ أَغْمَضْتُ فِي مَطَالِبِهِ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ. لَوْ لَا أَنَّ بَنِي أُمَيَّةَ وَجَدُوا مَنْ يَكْتُبُ لَهُمْ وَ يَجْبِي لَهُمُ الْفَيْءَ وَ يُقَاتِلُ عَنْهُمْ وَ يَشْهَدُ جَمَاعَتَهُمْ لَمَا سَلَبُونَا حَقَّنَا وَ لَوْ تَرَكَهُمُ النَّاسُ وَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ مَا وَجَدُوا شَيْئاً إِلَّا مَا وَقَعَ فِي أَيْدِيهِمْ قَالَ فَقَالَ الْفَتَى جُعِلْتُ فِدَاكَ (الی آخره). (الکافی، ج 5، کتاب المعیشة، باب ،3 ح 4. ص 106.)
مرحوم کلینی نے معتبر اسناد سے علی بن ابی حمزہ سے روایت کی ہے کہ: "میرا ایک دوست تھا جو بنی امیہ کی سرکاری خطوط لکھنے والوں میں سے تھا۔ اس نے مجھ سے کہا: ‘امام جعفر صادق علیہ السلام سے میرے لئے ملاقات کی اجازت لے آؤ۔’ میں نے اجازت طلب کی، اور امام علیہ السلام نے اجازت دے دی۔" جب وہ حاضر ہوا تو اس نے سلام کیا اور بیٹھ گیا، پھر کہا:
‘جعلت فداک، (میں آپ پر قربان) میں ان لوگوں کے دیوان میں تھا اور ان کی دنیا سے بہت سا مال حاصل کیا اور ان کے مطالب میں بہت زیادہ مگن رہا۔’ حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: ‘اگر یہ نہ ہوتا کہ بنی امیہ کے پاس کوئی ایسا ہو جو ان کے لئے لکھتا، ان کے ٹیکس وصول کرتا، ان کے لئے لڑتا اور ان کی جماعت میں شریک ہوتا، تو وہ ہمارے حق کو نہیں چھین پاتے۔ اور اگر لوگ انہیں چھوڑ دیتے اور جو کچھ ان کے ہاتھ میں تھا اسے نہ لیتے، تو انہیں کچھ بھی نہ ملتا سوائے اس کے جو ان کے پاس ہوتا’ تو نوجوان نے کہا: ‘جعلت فداک۔ کیا (اب) میرے لئے کوئی راہ چارہ ہے؟" امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "اگر میں حکم دوں تو تم انجام دو گے؟" اس نے کہا: "جی ہاں۔" پھر امام نے اسے ہدایت اور رہنمائی کی اور فرمایا: "اگر تم ان نکات کا خیال رکھو، تو میں تمہارے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں۔" وہ نوجوان (میرا دوست) طویل عرصہ سر جھکائے بیٹھا رہا اور کچھ نہ بولا (گویا غور کر رہا تھا کہ کیا امام علیہ السلام کی ہدایت پر عمل کرنا درست ہوگا)۔
پھر اس نے کہا: "قبول ہے، میں آپ پر قربان ہو جاؤں۔
قُلْتُ لِأَبِي الْحَسَنِ. مَا تَقُولُ فِي أَعْمَالِ هَؤُلَاءِ- قَالَ إِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَاتَّقِ أَمْوَالَ الشِّيعَةِ قَالَ فَأَخْبَرَنِي عَلِيٌّ أَنَّهُ كَانَ يَجْبِيهَا مِنَ الشِّيعَةِ عَلَانِيَةً وَ يَرُدُّهَا عَلَيْهِمْ فِي السِّرِّ. (المصدر المذکور، باب 31، ح 3.)
مرحوم کلینی نے کافی میں علیّ بن یقطین سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے عرض کیا: آپ کا اس بارے میں کیا حکم ہے کہ ان لوگوں کے سرکاری کاموں میں شرکت کی جائے؟ آپ نے فرمایا: اگر شرکت کرنے پر مجبور ہو تو شیعہ کے مال پر ہاتھ ڈالنے سے پرہیز کرو۔ راوی (ابراہیم بن ابی محمود) کہتے ہیں: علیّ بن یقطین نے مجھے بتایا کہ میں نے شیعہ سے ٹیکس کھلے عام وصول کیا، مگر چھپا کر انہیں واپس دے دیتا تھا۔









آپ کا تبصرہ