تحریر:مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری
گزشتہ دن ۲۶ اکتوبر کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جو سیاسی دَور چلا، وہ محض چند قراردادوں اور ووٹوں کی بازی گری نہ تھی، بلکہ اس کے پس منظر میں ایک گہری حقیقت اور ایک پرانا طرزِ عمل چھپا ہوا تھا۔ مغربی طاقتیں، جو اپنے تمدن، عسکری قوت اور اقتصادی غلبے کو دنیا پر مسلط دیکھنے کی عادی ہو چکی ہیں، آج بھی اسی خواب کی اسیر ہیں کہ مشرق کی آزاد قومیں ہمیشہ ان کے اشاروں پر چلتی رہیں، اپنے وسائل ان کے قدموں پر ڈھیر کرتی رہیں اور اپنی سیاست و معیشت ان کے فیصلوں کی محتاج ہو۔
یہ کھیل نیا نہیں۔ تاریخ کے صفحات اس حقیقت سے بھرے پڑے ہیں کہ جب کبھی مشرق نے آزادی کی سانس لینے کی کوشش کی، جب کبھی کسی قوم نے اپنے وسائل کو اپنی قوم کی بھلائی کے لیے بروئے کار لانے کا عزم کیا، تو مغرب کی سیاست نے اسے خطرہ قرار دیا، اور قانون و انصاف کے نام پر دباؤ، سازش اور پابندیاں مسلط کر دیں۔ کبھی اسے ’’مہلک ہتھیار‘‘ کا بہانہ بنایا گیا، کبھی ’’انسانی حقوق‘‘ کا شور مچایا گیا، اور کبھی ’’عالمی امن‘‘ کے نام پر لشکر کشی کی گئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب نعرے محض پردہ پوشی کے ہتھیار تھے، تاکہ اصل مقصد—یعنی مشرق کو غلام بنائے رکھنے کا منصوبہ—چھپایا جا سکے۔
ایران نے اس تازہ سیاسی کھیل میں یہ پیغام دیا ہے کہ وہ دباؤ کے سامنے جھکنے والی قوم نہیں۔ اس نے ثابت کیا کہ عزت و غیرت پر زندہ رہنے والے معاشرے اپنی مشکلات کو سہہ لیتے ہیں لیکن غلامی کو قبول نہیں کرتے۔ ایران نے پابندیوں کے اس طوفان میں بھی ڈگمگانے کے بجائے اپنی جڑوں کو اور مضبوط کیا ہے۔ اس نے خود کفالت کی طرف قدم بڑھائے، اپنے وسائل اور اپنی قوتِ بازو پر بھروسہ کیا، اور دنیا کو یہ بتایا کہ اگر ایک قوم اپنی خودی کو زندہ کر لے تو بڑی سے بڑی طاقت اس کے عزم کو توڑ نہیں سکتی۔
یہی وہ سبق ہے جسے قرآن نے بار بار یاد دلایا ہے:“فَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ”(کمزور نہ پڑو، غم نہ کرو، تم ہی بلند رہو گے اگر ایمان والے ہو۔ [آل عمران: ۱۳۹])
ایران کی ڈٹ کر مزاحمت دراصل امتِ مسلمہ کے لیے ایک آئینہ ہے کہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں، اگر قومیں اپنی خودی کو پہچانیں اور اپنی تقدیر کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لینا چاہیں۔ مغربی طاقتوں کا سارا نظام اس بات پر قائم ہے کہ مشرق اپنی طاقت کو نہ پہچانے اور اپنی صلاحیت کو بروئے کار نہ لائے۔ لیکن جب کبھی کوئی قوم اپنی خودی کی حفاظت کرتی ہے تو وہ نظام لرزنے لگتا ہے۔
لہٰذا یہ لمحہ محض ایران کا نہیں بلکہ امتِ اسلامیہ اور تمام حریت پسند قوموں کے لیے ایک پیغام ہے کہ غلامی مقدر نہیں ہے، عزت اور خودمختاری ان کا حق ہے، اور مزاحمت ہی وہ راستہ ہے جو قوموں کو ذلت سے نکال کر عزت کی چوٹیوں تک پہنچاتا ہے
عالمی دباؤ اور سلامتی کونسل: ایک ظالمانہ کھیل:
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ عالمی طاقتوں نے انصاف اور قانون کے پردے میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کی کوشش کی ہو۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ قانون کی کتاب ہمیشہ طاقتور کے ہاتھ میں رہی ہے اور ترازو ہمیشہ اس کے پلڑے میں جھکا ہوا۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے ’’اسنیپ بیک‘‘ کا حربہ، اور پھر سلامتی کونسل کی میز پر اس پر چھڑنے والا تنازع، دراصل اسی پرانے کھیل کا نیا ایڈیشن تھا۔
یہ کھیل تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ عالمی قوانین اور ضوابط اکثر وہی ہیں جو استعمار کے ایوانوں میں لکھے جاتے ہیں، اور جن کا مقصد عدل قائم کرنا نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو دوام دینا ہوتا ہے۔ مغرب کی یہ قوتیں ترقی اور جدیدیت کو اپنا موروثی حق سمجھتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ علم و ٹیکنالوجی کی روشنی ان کے شہروں تک محدود رہے اور مشرق کی بستیاں ہمیشہ انحصار اور محتاجی کے اندھیروں میں ڈوبی رہیں۔ سلامتی کونسل کا حالیہ فیصلہ اسی ذہنیت کی عملی تصویر تھا—جہاں انصاف کا ترازو نہیں بلکہ سیاست کی کج روی غالب آئی۔
ایران کی رواں پالیسی: ڈٹ کر مقابلہ اور خود انحصاری:
لیکن ایران کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس قوم نے کبھی بھی کمزوری اور مایوسی کو اپنا شعار نہیں بنایا۔ پابندیوں کے طوفان نے اگر ایک دروازہ بند کیا تو ایران نے اپنے ہاتھوں سے کئی نئے دروازے کھول دیے۔ اس نے اپنی معیشت کو باہر کی محتاجی سے نکال کر اندرونی قوت پر استوار کیا۔ صنعتوں کو فروغ دیا، مقامی وسائل کو بروئے کار لایا، اور اپنے نوجوانوں کو تعلیم و ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ دیا۔
یہ وہ قوم ہے جس نے ستم کے بوجھ تلے دبنے کے بجائے اپنے عزم و استقلال کو فولاد بنایا۔ جس نے پابندیوں کو رکاوٹ نہیں بلکہ ایک چیلنج سمجھا اور اس چیلنج کو خود انحصاری کے موقع میں بدل دیا۔ آج ایران کے توانائی منصوبے، سائنسی تحقیقات اور دفاعی صلاحیتیں اس امر کا اعلان ہیں کہ اگر موقع دیا جاتا تو یہ قوم نہ صرف اپنی تقدیر سنوارتی بلکہ دنیا کے لیے بھی ایک قابلِ اعتماد، طاقتور اور مفید شراکت دار بنتی۔
ایران کی یہ روش ہمیں وہی درس دیتی ہے جو قرآن نے دیا تھا:“إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ” (آل عمران: ۱۶۰)اگر اللہ تمہارا مددگار ہو تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔
یہی وہ ایمان اور یہی وہ یقین ہے جس نے ایران کو پابندیوں کے طوفان میں بھی سربلند رکھا، اور یہی پیغام پوری امت کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے کہ اگر خودی کو بیدار کر لیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت غلامی کی زنجیروں میں جکڑ نہیں سکتی۔
اگر پابندیاں نہ ہوتیں: ایران کی ترقی اور عالمی فائدہ:
سوچئے! اگر وہ ظالمانہ پابندیاں کبھی نہ لگتیں، اگر سلامتی کونسل طاقت کے کھیل کا میدان نہ بنتی، اور اگر مغربی قوتیں اپنی ہوسِ تسلط کو لگام دیتیں، تو ایران آج کی دنیا کا ایک اور ہی منظر پیش کرتا۔ ایک ایسا منظر جہاں ترقی اور تعاون صرف مغرب کی میراث نہ ہوتا، بلکہ مشرق بھی اس میں برابر کا شریک ہوتا۔
1. تیل، گیس اور توانائی کے منصوبے:
ایران کی زمین میں چھپی ہوئی دولت محض ایک ملک کی دولت نہیں بلکہ پوری دنیا کے استحکام کی ضمانت تھی۔ اگر ایران کو آزادانہ طور پر توانائی کے منصوبوں میں شریک ہونے دیا جاتا، تو عالمی منڈی کے نشیب و فراز کم ہوتے، قیمتوں کے جھٹکے اعتدال میں آتے، اور توانائی کا بہاؤ زیادہ منصفانہ انداز میں دنیا کے ہر گوشے تک پہنچتا۔ مگر طاقتور قوتوں نے چاہا کہ یہ سرچشمے صرف ان کے ہاتھ میں رہیں، تاکہ دنیا ہمیشہ ان کی شرائط پر زندہ رہے۔
2. تکنیکی شراکت اور تحقیق:
ایران کا سائنسی سرمایہ، اس کی جامعات، اس کے انجینئر، اس کے محققین—یہ سب اگر عالمی تعاون کے دائرے میں آتے تو طب، زراعت اور صنعت میں نئی راہیں کھل جاتیں۔ بیمار کو شفا ملتی، کسان کو زمین سے زیادہ پیداوار ملتی، صنعتکار کو نئے آلات ملتے، اور پوری انسانیت کو ایک نئی امید نصیب ہوتی۔ لیکن مغرب نے اس دروازے کو بند رکھا، کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ مشرق اپنی تحقیق سے خود کفیل ہو کر اس کے محتاجی سے آزاد ہو جائے۔
3. تجارتی راہداری اور علاقائی کنیکٹیویٹی:
ایران کا جغرافیہ اسے ایک قدرتی پل بناتا ہے—شمال کو جنوب سے، مشرق کو مغرب سے ملانے والا۔ اگر ایران کو اس کردار میں پنپنے دیا جاتا تو تجارت کے بہاؤ میں ایک نئی روانی آتی، منڈیوں کے فاصلے گھٹتے، اور خطے میں ایک نئی خوشحالی جنم لیتی۔ لیکن مغرب کی پالیسی یہ رہی ہے کہ مشرق کے راستے بند کر دیے جائیں، اور دنیا کو مجبور کیا جائے کہ وہ صرف مغربی دروازوں سے گزرے۔
یہ سب امکانات ایک حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ایران نہ صرف اپنی قوم کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ترقی اور استحکام کا زینہ بن سکتا تھا۔ مگر مغربی طاقتوں نے اپنے اقتدار کے نشے میں اس راستے کو مسدود کر دیا، کیونکہ ان کی خواہش ہے کہ ترقی اور پیش رفت صرف ان کے ایوانوں میں محدود رہے، اور اہلِ مشرق کو ہمیشہ محکومی اور محتاجی کی حالت میں رکھا جائے۔
قرآن نے ایسے ہی ظالموں کے بارے میں فرمایا: “وَيُرِيدُونَ أَن يُطْفِـُٔوا نُورَ ٱللَّهِ وَيَأْبَى ٱللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ ٱلۡكَـٰفِرُونَ”(وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو بجھا دیں، مگر اللہ کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے نور کو کامل کرے، چاہے کافر کتنا ہی ناپسند کریں۔ [التوبہ: ۳۲])
ایران کا سفر دراصل اسی نور کی تکمیل کی علامت ہے۔ پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنے چراغ کو بجھنے نہیں دیا، بلکہ ہوا کے ہر تھپیڑے کو آگ کی لو میں بدل دیا۔ یہ وہ مزاحمت ہے جو صرف ایک قوم کی بقا نہیں بلکہ پوری دنیا کی آزادی اور ترقی کے خواب کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
مظالم کی خاطر عالمی قواعد کا دوہرا معیار:
دنیا کے طاقتور حلقے جب بھی ’’انسانی حقوق‘‘، ’’قانون‘‘ یا ’’عدم پھیلاؤ‘‘ کے نام پر بول اٹھتے ہیں تو ان کے ہونٹوں پر انصاف کے نعروں کے ساتھ ساتھ اپنے مفاد کا تلخ ارادہ بھی جھلکتا ہے۔ یہ وہی قوتیں ہیں جو قوانین کو اپنے خواص کے لیے ڈھال بناتی ہیں اور دوسروں کے لیے زنجیر۔ جب عالمی قواعد واقعی منصفانہ ہوتے تو ان کا اطلاق سب پر یکساں ہونا چاہیے — امریکہ پر بھی، یورپ پر بھی، ایران پر بھی۔ مگر تاریخ اس نکتہ کا دردناک ثبوت ہے کہ یہی قواعد اکثر طاقتوروں کے سیاسی آلات بن جاتے ہیں۔
یہ دوہرا معیار آج ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں میں واضح ہے؛ مگر یہ پہلی مرتبہ نہیں۔ زمانے کی پیمائش پر نگاہ دوڑائیں تو ایک طویل سیلِ واقعات سامنے آ جاتا ہے:
عراق — وہ دن یاد رکھئے جب ’’تباہ کن ہتھیار‘‘ کے شعلے کے نام پر ایک پوری قوم پر یلغار کی گئی۔ جس زمین کو برباد کیا گیا، لاکھوں انسانوں کی جانیں ضائع ہوئیں، تاریخ کے صفحات پھاڑ دیے گئے — اور بعد میں اسی دنیا نے اعتراف کیا کہ بہانے جھوٹے تھے۔ مگر انصاف کی عدالت نے ان خونوں کا حساب نہ لیا؛ وہی طاقتیں جنہوں نے جنگ کا سوراخ کھولا، آج بھی عالمی میزوں پر ناچ رہی ہیں۔
افغانستان — ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘ کے نام سے ایک دو دہائی پر محیط ہنگامہ برپا ہوا۔ فوجیں آئیں، بم برسے، آہ و فغان کی صدائیں بلند ہوئیں، پھر وہی قوتیں ایک دن خاموشی سے چلی گئیں، پیچھے صرف ملبہ، یتیم اور داغدار قوم رہ گئی۔ قوانین اور وعدے وہاں بھی کم پڑ گئے جب عمل کرنے کا وقت آیا۔
فلسطین — اس کا ذکر بار بار ہوتا ہے مگر دل خون کے آنسو بہاتا ہے۔ قابض ریاست کے تحت ہونے والا استحصال، شہادتیں، بےگھریاں، مساجد اور اسکولوں کی تباہی — یہ سب بین الاقوامی فورمز میں آکر محض عنوان بن کر رہ جاتے ہیں۔ جب سوال اٹھتا ہے تو دفاعِ استعماری کو جواز قرار دے دیا جاتا ہے اور انصاف کو سست کر دیا جاتا ہے۔
شھیہ تاریخی مثالیں ہمیں بتاتی ہیں کہ عالمی قوانین کا اطلاق اخلاق یا انصاف کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفادات اور طاقت کے توازن کے مطابق ہوتا آیا ہے۔ ایران کے خلاف وہی تناور منطق لاگو کی جاتی ہے: جہاں ایک طرف ایران کو ’’معاہدہ شکن‘‘ کہا جاتا ہے، دوسری طرف وہی ممالک جو معاہدات کے روح کو پامال کر چکے ہیں، بیٹھ کر اپنے فیصلے سناتے ہیں۔ گویا انصاف کا تہہ خانہ اقتدار کے ہاتھ میں ہے اور ضعیف اقوام کو فیصلہ کن سزا دی جاتی ہے۔
مگر یہی تاریخ یہ بھی سکھاتی ہے کہ ظلم کی عمارت دیرپا نہیں ہوتی۔ جب قومیں حق و استقلال کے لیے متحد ہو کر کھڑی ہوں، جب ان کے اندر خودی اور عزت نفس کی آگ جل اٹھے، تو بڑی سے بڑی قوتیں بھی پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ایران آج اسی راستے پر گامزن ہے—مزاحمت، خود انحصاری اور قومی وقار کی راہ پر—اور یہی سبقِ عبرت پوری امتِ مسلمہ اور مظلوم قوموں کے لیے مشعل راہ ہے۔
ایران کی مزاحمت: اخلاقی و عملی دونوں جہتوں میں فاتح:
دنیا کی آنکھوں نے یہ منظر بارہا دیکھا ہے کہ جب طاقتور اقوام دباؤ ڈالتی ہیں تو اکثر کمزور قومیں جھک جاتی ہیں، لیکن ایران نے اس روایت کو توڑ دیا۔ اس نے اپنے وجود کو نہ صرف عملی اقدامات سے بچایا بلکہ اخلاقی وقار کو بھی مجروح نہ ہونے دیا۔ ایران نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مذاکرات کے دروازے بند نہیں، مگر وہ دروازے صرف اس وقت کھلتے ہیں جب قومی مفاد، آزادی اور عزت نفس محفوظ رہے۔
ایران نے اپنے عزم کو اسی امید کے ساتھ استوار کیا۔ چین، روس اور غیر مغربی دنیا کے بازاروں کی طرف رجحان، تکنیکی خود کفالت کے عظیم پروگرام، مقامی صنعتوں کو فروغ دینے کی تحریک—یہ سب دراصل ایک نئے تمدنی ماڈل کی بنیاد ہے جسے ’’مزاحمتی ترقی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ایک ایسی ترقی جو غلامی کے بجائے آزادی سے جنم لیتی ہے، اور جس میں پسپائی کے بجائے خود اعتمادی کا خون دوڑتا ہے۔
مغرب کی حقیقت: طاقت کے ذریعے کنٹرول:
مغربی طاقتیں ترقی کو ’’عالمی حق‘‘ کے بجائے اپنی ’’وراثت‘‘ سمجھتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ مشرق اپنی محنت کے بل پر اوپر اٹھے، اپنی سرزمین کے وسائل سے فیض اٹھائے اور دنیا کے نقشے پر ایک خودمختار کھلاڑی کے طور پر ابھرے۔ ان کے ایوانوں کی سیاست ہمیشہ اس فکر پر قائم رہی ہے کہ ترقی کا چراغ صرف ان کی بستیوں میں روشن رہے اور مشرق کی گلیاں اندھیروں میں ڈوبی رہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اہلِ مشرق کے لیے غلامی کے نئے جال بُنے جاتے ہیں—کبھی تجارتی معاہدوں کے پردے میں، کبھی مالیاتی اداروں کی شرائط کے نام پر، اور کبھی ٹیکنالوجی کی اجارہ داری کے بہانے۔ ایران کے خلاف جو دباؤ ڈالا گیا، وہ دراصل اسی عظیم منصوبے کا حصہ ہے: دنیا کی دولت، ٹیکنالوجی اور اثرورسوخ کو چند ہاتھوں تک محدود رکھنا اور باقی اقوام کو محض صارف، خریدار اور تابع بنا دینا۔
مگر تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جو قوم اپنی صلاحیت کو پہچان لے اور اپنے وسائل پر بھروسہ کرے، وہ بیرونی دباؤ کو اپنے عزم کے سامنے ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ ایران آج اسی راہ پر ہے—ایک ایسا راستہ جو صرف اپنی آزادی کی ضمانت نہیں بلکہ اہلِ مشرق کے لیے بیداری کا پیغام ہے۔
بہترین راہ: ایران اور عالمی برادری دونوں کے لیے تجاویز:
ایران کے تجربے نے یہ ثابت کر دیا کہ پابندیاں اور دباؤ کسی قوم کے حوصلے کو ختم نہیں کر سکتے۔ بلکہ یہ دباؤ بعض اوقات ایک نئی توانائی اور خود اعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ اس پس منظر میں چند روشن راستے سامنے آتے ہیں:
1. ایران کے لیے: سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خود کفالت کے سفر کو مزید تیز کرے۔ تعلیم کو مضبوط بنیاد بنائے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مزید آگے بڑھے، اور اپنی اندرونی صنعتوں کو ایسا سہارا دے کہ بیرونی دباؤ محض ہوا کی ٹھنڈی لہر محسوس ہو۔ یہی وہ ’’اقتصادِ مقاومتی‘‘ ہے جو نہ صرف پابندیوں کا توڑ ہے بلکہ آنے والے کل کے لیے ایران کو ایک خودمختار ماڈل بناتا ہے۔
2. عالمی برادری کے لیے: یہ وقت ہے کہ طاقتور قوتیں اپنی پرانی روش ترک کریں۔ قوانین کو محض سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے دنیا میں بے اعتمادی بڑھ رہی ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ باہمی احترام، مساوات اور دیانت پر مبنی عالمی تعاون کو فروغ دیا جائے تاکہ انسانیت کو فائدہ ہو، نہ کہ چند طاقتوں کے مفادات کو۔
3. علاقائی تعاون: مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے وسائل اور جغرافیے کو استعمال کر کے ترقی کے راستے خود متعین کریں۔ اگر خطہ اپنے فیصلے خود کرے تو نہ صرف اپنی قومیں خوشحال ہوں گی بلکہ عالمی استحکام بھی ممکن ہوگا۔
4. بین الاقوامی ادارے: اداروں کو محض طاقتوروں کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے بلکہ شفافیت اور یکسانیت کے اصول اپنانے چاہئیں تاکہ چھوٹے ممالک بھی انصاف کے حقدار ٹھہریں۔ اگر انصاف کے دروازے سب پر یکساں نہ کھلیں تو یہ ادارے اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔
مزاحمت حق کی آواز
ایران کی مزاحمت کمزوری یا مجبوری نہیں، بلکہ ایمان اور خودداری کا اعلان ہے۔ جب ایک قوم اپنے وسائل کو سنبھال کر، اپنی صلاحیتوں کو بیدار کر کے، اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ کر کے کھڑی ہو جائے، تو وہ صرف اپنی آزادی کا پرچم نہیں لہرائے گی بلکہ دنیا کو ایک نیا راستہ دکھائے گی۔
یہی وہ ماڈل ہے جس میں طاقت کے بجائے انصاف کا بول بالا ہے، دھونس کے بجائے تعاون کی فضا ہے، اور غلامی کے بجائے ترقی کی آزادی ہے۔ ایران نے یہ دکھا دیا ہے کہ حق پر ڈٹ جانا شکست نہیں بلکہ کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔
اختتاماً یہ کہنا ضروری ہے کہ دنیا کے ترقیاتی راستے کسی ایک طاقت یا کسی ایک خطے کی میراث نہیں۔ یہ پوری انسانیت کا حق ہے۔ اگر ایران کو آزادانہ ترقی کا موقع دیا جاتا تو وہ نہ صرف اپنے عوام کی فلاح کرتا بلکہ دنیا کی توانائی، سائنسی تحقیق اور تجارتی بہاؤ کو ایک نیا استحکام دیتا۔
مگر افسوس، جو قوتیں اپنے مفاد کو انسانیت پر ترجیح دیتی ہیں، وہ دراصل پوری نوعِ انسانی کی بھلائی کے راستے مسدود کر رہی ہیں۔ آج سوال پوری دنیا کے سامنے ہے:
کیا ہم طاقت کے شورش پسندوں کی دیواروں کے پیچھے غلام بن کر رہیں گے، یا انصاف، مساوات اور حقیقی ترقی کی طرف بڑھیں گے؟
آج ایران نے اپنے عزم و استقلال، صبر و استقامت اور ایمان کی حرارت سے مغرب کی استعماری طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر یہ اعلان کر دیا ہے کہ غلامی مقدر نہیں اور آزادی قابلِ تسخیر حقیقت ہے۔ پابندیوں کی آندھیاں، سازشوں کے طوفان، اور سفارتی دباؤ کے بادل بھی اس قوم کے عزم کو متزلزل نہ کر سکے۔ ایران آج ایک جیتی جاگتی مثال ہے کہ جب کوئی ملت اپنی خودی کو پہچان لے اور اپنے وسائل پر بھروسہ کرے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے۔
اب فیصلہ دنیا کے مظلوم ممالک کے ہاتھ میں ہے: کیا وہ ان ایوانوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے جہاں طاقت استحصال کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، جہاں قانون صرف مفاد کا آلہ ہے اور انصاف طاقتور کے در پر قید ہے ؟ یا وہ اس قافلے میں شامل ہوں گے جو آزادی کی صدا بلند کرتا ہے، جو حق کی سربلندی کے لیے قربانیاں دیتا ہے، اور جو انصاف کو دنیا کے ہر مظلوم کا حق سمجھتا ہے ؟
یہ سوال صرف ایران اور مغرب کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہے۔ تاریخ کی عدالت گواہ ہے کہ طاقت کا جبر عارضی ہے مگر حق کی صدا دائمی۔ وہ قافلہ جس کی بنیاد حق، عدل اور آزادی پر ہے آخرکار کامیاب ہوگا، اور وہ ایوان جو ظلم پر کھڑے ہیں خس و خاشاک کی طرح بکھر جائیں گے۔
ایران نے صبر اور جہاد کے ساتھ اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے۔ اب باقی دنیا کے لیے امتحان باقی ہے کہ وہ طاقت کے استحصالی ایوانوں کی صف میں کھڑی ہوتی ہے یا انصاف و آزادی کے قافلے میں شامل ہوتی ہے۔









آپ کا تبصرہ