حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا ذہین علی نجفی کی میزبانی میں بانڈی سیداں جموں وکشمیر پاکستان میں ایک نشست فکری و قومی مشاورت کے عنوان سے منعقدہ ہوئی؛ جس میں علمائے کرام سمیت علاقے کے عمائدین نے بھرپور شرکت کی۔

یہ نشست محض ایک ملاقات پر مشتمل نہیں تھی، بلکہ قوم سازی، فکری بیداری اور باہمی یکجہتی کی جانب ایک مؤثر قدم تھی۔
اس اجتماع میں علمائے کرام، سماجی و تعلیمی شخصیات، سیاسی نمائندگان اور مختلف طبقات کے ذمہ داران نے بھرپور شرکت کی۔
نشست کا محور؛ ہمیں قوم بننے کی ضرورت ہے، تھا۔ نشست میں قوم بننے کے تقاضے، تعلق، مشاورت اور برداشت پر گفتگو کی گئی۔
شرکاء نے اس امر پر زور دیا کہ قوم صرف نعروں یا وابستگیوں سے نہیں بنتی، بلکہ آپس کے روابط، باہمی تبادلۂ خیال اور ایک دوسرے کے احساس و احترام سے بنتی ہے۔ اگر ہم چھوٹے موٹے اختلافات کے باوجود برداشت، حوصلہ افزائی اور قربانی کا جذبہ پیدا کر لیں تو یہی رویے قوم کی بنیاد بنتے ہیں۔
نشست میں اس بات پر بھرپور اتفاق کیا گیا کہ معاشرتی اور قومی فیصلے بند کمروں میں نہیں، بلکہ کھلی مشاورت سے ہونے چاہئیں۔ ہر طبقہ، ہر سوچ اور ہر ذمہ دار کو شامل کرنا چاہیے، تاکہ فیصلے اجتماعی بصیرت اور انصاف پر مبنی ہوں۔ جس قوم کے فیصلے مشاورت سے ہوں، وہاں اختلاف بکھرتا نہیں، سمیٹتا ہے۔ مشاورت ہی وہ راستہ ہے جو دانش، تحمل، اور اتحاد کو جنم دیتا ہے اور یہی آئمہ اہل بیتؑ کی تعلیمات کا جوہر ہے۔
شرکاء نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ اختلاف کوئی جرم نہیں، مگر اختلاف میں نفرت جرم بن جاتی ہے۔ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ معمولی نظریاتی یا سماجی اختلاف کی بنیاد پر کسی کی کلی نفی نہ کی جائے، بلکہ ہر فرد کو اس کے کردار، خدمت اور مقام کے مطابق تسلیم کیا جائے؛ یہی طرزِ فکر معاشرے میں توازن اور بھائی چارے کو جنم دیتا ہے۔
نشست میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ معاشرتی، فکری اور تنظیمی مسائل کا حل آپس کے روابط، مشاورت اور باہمی تعاون میں پوشیدہ ہے۔ جب علماء، تعلیمی، سماجی اور سیاسی طبقات مل بیٹھ کر بات کریں گے تو مسائل حل ہوں گے، غلط فہمیاں کم ہوں گی، اور قوم متحد ہوگی۔
اس موقع پر مولانا ذہین علی نجفی نے کہا کہ ہمیں صرف اپنی ذات کے محور سے نکل کر اجتماعی مفاد کو مقدم رکھنا ہوگا؛ قومیں ان لوگوں سے بنتی ہیں جو ایک دوسرے سے جڑتے ہیں، نہ کہ جو ایک دوسرے کو کاٹتے ہیں۔
مولانا ذہین علی نجفی نے عدل کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم علیؑ کے ماننے والے ہیں اور علیؑ کا پہچان عدل ہے، لہٰذا ہماری حمایت یا مخالفت ذاتی مفاد یا رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اصول و عدالت پر ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم واقعی علوی راستے کے مسافر ہیں تو ہر فیصلے میں عدل، دیانت اور انصاف کو بنیاد بنانا ہوگا، کیونکہ علیؑ نے عدل کے لیے قربانیاں دیں اور شیعانِ علیؑ کو بھی اسی عدل کا علم بلند رکھنا چاہیے۔
اختتامی کلمات میں مولانا ذہین علی نجفی نے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب اپنے ذاتی دائرے سے نکل کر اجتماعی فلاح کو محور بنائیں۔ قوم اس وقت بنتی ہے جب لوگ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں، مشاورت کو ترجیح دیں اور فیصلے عدل و عقل کی بنیاد پر کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی صفوں میں رابطے پیدا کرنے ہیں، برداشت کو شعار بنانا ہے اور اجتماعی مفاد کے لیے ذاتی مفاد قربان کرنا ہے؛ یہی طریقہ قوموں کو زندہ کرتا ہے اور یہی ائمہ اہل بیتؑ کی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔









آپ کا تبصرہ