حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا ذہین نجفی نے پاکستانی وزارتِ داخلہ کی جانب سے زائرین کے زمینی سفر پر پابندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نجف اشرف سے، جو بارگاہِ امیرالمومنین علیہ السلام کا جوار اور روحانیت کا مرکز ہے، آپ کی خدمت میں ایک سنجیدہ، بامعنی اور برادرانہ پیغام پیش کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے لاکھوں مؤمنین، شیعہ و سنی، ایامِ اربعین کے مقدس سفر کی تیاریوں میں تھے، جن میں اکثریت ان عاشقانِ حسینؑ کی ہے جنہوں نے زندگی بھر کی جمع پونجی، وقت، جذبات اور ارادہ اس راہ میں وقف کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان اور بالخصوص وزارتِ داخلہ کی جانب سے بائی روڈ سفرِ زیارت پر اچانک پابندی کا فیصلہ، نہ صرف ایک انتظامی غیر سنجیدگی کا مظہر ہے، بلکہ اس نے ایک بڑے روحانی، اجتماعی اور قومی بحران کو جنم دیا ہے۔ یہ فیصلہ قوم کے ان دلوں پر بجلی بن کر گرا ہے جو امام حسینؑ کی محبت میں دھڑکتے ہیں، اور اس راہ کو عبادت، بندگی اور وفا کا میدان سمجھ کر طے کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا جناب وزیر، اگر یہ فیصلہ واقعتاً ناگزیر تھا تو اسے نہایت بروقت، شفاف اور مشاورتی انداز میں لیا جانا چاہیے تھا۔ چند دن قبل خود آپ نے سہہ فریقی اجلاس میں خوشخبریاں سنائیں، تیاریوں کی اطلاع دی اور قوم کو اطمینان دلایا۔ پھر یہ اچانک فیصلہ کس بنیاد پر سامنے آیا؟ اگر سکیورٹی یا دیگر خطرات موجود تھے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست کی ذمے داری صرف خطرات سے آگاہ کرنا ہے، یا ان خطرات سے بچانا، ان کا حل نکالنا اور قوم کو محفوظ راستہ دینا؟
انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اربعین کا یہ سفر محض ایک راستہ طے کرنے کا عمل نہیں، بلکہ ایک روحانی سلوک ہے، ایک اجتماعی شعور ہے، اور ایک ایمان افروز عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "حسینؑ کے قتل کی حرارت مومنوں کے دلوں میں کبھی سرد نہ ہوگی"۔ یہ وہی حرارت ہے جو آج بھی پاکستان کے مومنوں کے دلوں میں جل رہی ہے، اور یہی حرارت انہیں ہر رکاوٹ کے باوجود لبیک یا حسینؑ کہنے پر آمادہ کرتی ہے۔
مولانا سید ذہین نجفی نے کہا کہ اس وقت اگر ریاست نے اس حرارت کو عزت کے ساتھ سنبھالنے کے بجائے، اسے نظرانداز کیا تو یہ نہ صرف جذباتی نقصان ہوگا بلکہ ایک قومی صدمے کا سبب بھی بنے گا۔ اگر واقعی زمینی راستہ فی الحال ممکن نہیں تو ریاست کو چاہیے کہ فوری طور پر متبادل ذرائع فراہم کرے۔ قومی ایئرلائنز، پرائیویٹ پروازیں، یا کوئی دوسرا منظم فضائی انتظام سامنے لایا جائے تاکہ زائرین کی دل آزاری نہ ہو اور ان کا سفر مؤخر نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم آپ سے توقع کرتے ہیں کہ آپ اس فیصلے پر فوری نظر ثانی کریں گے اور قوم کو شکر اور دعا کا موقع دیں گے، بددعاؤں پر مجبور نہ کریں، اور اس آزمائش میں راہِ نجات کا کردار ادا کریں نہ کہ دیوار بن جائیں۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ ہم بارگاہِ خداوندی میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے، اس کے محافظوں کو قوت و بصیرت عطا فرمائے، اس ملک کو فرقہ واریت، بدنیتی اور بے حسی سے محفوظ رکھے، اور پاکستان کو حسینی مشن کا علمبردار بنائے۔









آپ کا تبصرہ