حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ سکردو علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے حکومت پاکستان کی جانب سے اربعین حسینی پر جانے والے زائرین کے زمینی سفر پر پابندی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتِ وقت کی جانب سے پاک-ایران بارڈر کو اچانک بند کر دینا اور زائرینِ کربلا کے لیے راہِ زیارت کو مزید مشکل بنانا نہایت افسوسناک، غیر ذمہ دارانہ اور قابلِ مذمت اقدام ہے۔
امام جمعہ سکردو کے بیان کا مکمل متن مندرجہ ذیل ہے:
بسم الله الرحمٰن الرحیم
وَ مَنْ خَرَجَ فِی سَبِیْلِ اللہِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَمُتْ فَلَا جَرَمَ اَنَّ اللہَ سَیَرْزُقُهُ اَجْرًا عَظِیْمًا.
گزشتہ دنوں حکومتِ وقت کی جانب سے پاک-ایران بارڈر کو اچانک بند کر دینا اور زائرینِ کربلا کے لیے راہِ زیارت کو مزید مشکل بنانا نہایت افسوسناک، غیر ذمہ دارانہ اور قابلِ مذمت اقدام ہے۔ یہ عمل ان ہزاروں عاشقانِ اہلِ بیتؑ کی دینی آزادی، عقیدتی وابستگی اور بنیادی انسانی حقوق پر سنگین ضرب ہے، جو ہر سال پرامن طور پر مقدس مقامات کی زیارت کے لیے سفر کرتے ہیں۔
ہمیں احساس ہے کہ ملک کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز حقیقی ہیں اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ مگر سیکیورٹی کو بہتر بنانے کا حل ہرگز یہ نہیں کہ راستے بند کر دیئے جائیں اور عوام کے مذہبی حقوق سلب کیے جائیں۔ ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ سیکیورٹی کا مطلب فل پروف نظام قائم کرنا ہے، نہ کہ دروازے بند کرنا۔
پاکستان نے دنیا کی سب سے بڑی دہشتگردی کے چیلنجوں کا سامنا کیا ہے، مگر جب دیگر مواقع پر ہم مؤثر انتظامات کر سکتے ہیں تو زائرین کے لیے کیوں نہیں؟ زائرینِ اہل بیتؑ پاکستان کی پرامن، باوقار اور باکردار شیعہ آبادی کا حصہ ہیں، جنہوں نے ہمیشہ قانون، نظم و ضبط اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک ناقابلِ برداشت ہے۔
ہم حکومتِ پاکستان اور متعلقہ اداروں سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ
1. فوری طور پر پاک-ایران بارڈر کو زائرین کے لیے کھولا جائے اور ان کے لیے مؤثر سہولت کاری کی جائے۔
2. زائرین کی حفاظت کے لیے فل پروف سیکیورٹی پلان تشکیل دیا جائے، بجائے اس کے کہ اُن پر سفر بند کر دیا جائے۔
3. زیارات کو ایک بین الاقوامی مذہبی، ثقافتی اور انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
4. بار بار کی رکاوٹوں، بدانتظامیوں اور تضحیک آمیز رویوں پر شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔
5. علماء، زائرین اور ریاستی اداروں کے درمیان مشاورت و مکالمے کا مستقل، باضابطہ نظام قائم کیا جائے، تاکہ یہ مسئلہ ہر سال نہ دہرایا جائے۔
ہم تمام مسالک کے علماء، دینی و سیاسی شخصیات، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عوام الناس سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ناعاقبت اندیش فیصلے کے خلاف آواز بلند کریں اور حکام کو یہ پیغام دیں کہ مذہبی عقائد اور آزادیوں پر قدغن ناقابلِ قبول ہے۔
ہم اپنی قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح اس مسئلے کو اتحاد، حکمت اور استقامت کے ساتھ اجاگر کرتے رہیں گے اور ان شاء اللہ زائرینِ اہل بیتؑ کی عزت، آزادی اور سہولت کے لیے ہر ممکن عملی اقدام جاری رکھیں گے۔
والسّلام
محمد حسن جعفری
۲۸ جولائی ۲۰۲۵










آپ کا تبصرہ