تحریر: جمال عباس فہمی
حوزہ نیوز ایجنسی| تین یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں نے ایک بار پھر ایران کو ٹریگر میکانزم کو فعال کرنے کی دھمکی دی ہے۔ برطانوی وزیراعظم کے دفتر کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک بیان کے مطابق، “ایران کے جوہری پروگرام پر، تینوں ممالک کے رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگر ایران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنے اور سفارت کاری کی طرف واپس آنے میں ناکام رہتا ہے تو اگست کے آخر میں پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں گی۔
جب جب ایران کو عالمی طاقتوں کی جانب سے پابندیاں سخت کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے تب بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔ ایران گزشتہ چالیس برسوں سے مغرب کی نافز کردہ معاشی اورتجاری پابندیاں جھیل رہا ہے لیکن مغربی دباؤ کے آگے جھکنے کے بجائے ایران نے سائنس اور ٹیکنالاجی کے میدان میں خود کفیل ہونے کی کامیاب پالیسی اختیار کی۔
ایران نے معاہدے کی پاسداری کی ہے
دو ہزار پندرہ سے دو ہزار اٹھارہ کے دوران IAEA کے معائنہ کاروں نے اپنی رپورٹوں میں تصدیق کی کہ ایران جوہری معاہدے کی مکمل پاسداری کررہا ہےلیکن بدلے میں ایران کو کیا ملا؟ معاہدے کی ایک اہم شرط یہ تھی کہ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے جواب میں اس پر عائد اقتصادی پابندیاں نرم کی جائیں گی۔ تاہم، مغربی ممالک، خصوصاً امریکہ، نے پابندیوں کو ہٹانے میں ٹال مٹول سے کام لیا۔ اگرچہ کچھ پابندیاں علامتی طور پر ہٹائی گئیں، لیکن ایران کی معیشت کو عملی طور پر کوئی بڑا ریلیف نہ مل سکا۔ عالمی بینکوں اور کمپنیوں نے امریکی دباؤ کے تحت ایران کے ساتھ تجارت سے گریز کیا، جس سے معاہدے کا اقتصادی فائدہ ایران تک نہ پہنچ سکا۔
امریکی انخلا اور عالمی خاموشی
2018 میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر JCPOA سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا اور ایران پر “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی کے تحت سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ اس فیصلے نے معاہدے کی روح کو شدید نقصان پہنچایا۔ یورپی ممالک (برطانیہ، فرانس، جرمنی) نے امریکی فیصلےکی مذمت تو کی، لیکن عملی طور پر کوئی ٹھوس اقدام نہ اٹھایا۔ انہوں نے ایران کے ساتھ تجارت کے لیے ایک متبادل نظام (INSTEX) متعارف کرایا، لیکن یہ نظام غیر مؤثر ثابت ہوا اور ایران کی معاشی مشکلات کو حل نہ کر سکا۔
عالمی طاقتوں کی اس خاموشی نے ایران کے اعتماد کو مزید متزلزل کیا۔ ایران کا موقف تھا کہ اگر معاہدے کے فریقین اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے تو ایران بھی معاہدے کی پابندی سے آزاد ہے۔ اس کے نتیجے میں ایران نے 2019 سے اپنے جوہری پروگرام کی کچھ حدود کو توڑنا شروع کیا، جیسے کہ یورینیم کی افزودگی کی سطح کو بڑھانا، لیکن اس نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا کہ یہ اقدامات عارضی ہیں اور مذاکرات کے ذریعے واپس لیا جا سکتا ہے۔
حالیہ تنازعات اور IAEA پر الزامات
حالیہ برسوں میں، خصوصاً 2024-2025 کے دوران، ایران اور اسرائیل-امریکہ کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ اسرائیل نے ایران کے اہم فوجی حکام اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا اور ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے۔ ایران نے اپنی جانچ پڑتال کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ IAEA کے کچھ معائنہ کاروں نے اسرائیل اور امریکہ کے لیے جاسوسی کی جس کی وجہ سے ایران نے IAEA کے معائنہ کاروں کا اپنی تنصیبات میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ ایران کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اس کی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری تھا، کیونکہ معائنہ کاروں کی رپورٹس حساس معلومات لیک کر رہی تھیں جو حملوں کے لیے استعمال ہوئیں۔آئی اے ای اے نے ابھی تک یہ ثابت نہیں کیا کہ ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے، لیکن اس نے خبردار کیا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں سے خطے میں تباہی پھیل سکتی ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ اس نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو صرف دفاعی مقاصد کے لیے بڑھایا ہے، اور یہ مغربی ممالک کی جارحیت کا ردعمل ہے۔
پابندیوں کا اثر اور ایران کی لچک
ایران پر گزشتہ چار دہائیوں سے مختلف شکلوں میں پابندیاں عائد ہیں۔ ان پابندیوں کے باوجود، ایران نے اپنی دفاعی صلاحیتوں، خصوصاً میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی میں غیر معمولی ترقی کی۔ حالیہ ایران-اسرائیل تنازعے کے دوران، ایرانی میزائلوں نے اسرائیل کے جدید فضائی دفاعی نظام (جیسے ایرو اور ڈیوڈز سلنگ) کو ناکام بناتے ہوئے اسرائیلی شہروں اور قطر میں امریکی فوجی اڈے کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہ ترقی ایران کی خود انحصاری اور پابندیوں کے باوجود تکنیکی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ پابندیوں کی دھمکیوں کا اس پر کوئی اثر نہیں، کیونکہ وہ پہلے ہی کئی دہائیوں سے ان کا سامنا کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ JCPOA کے تحت پابندیاں مکمل طور پر کبھی ہٹی ہی نہیں، اور جو علامتی ریلیف دیا گیا وہ ایران کی معاشی بحالی کے لیے ناکافی تھا۔ اس لیے، “سنیپ بیک” میکانزم یا نئی پابندیوں کی دھمکی ایران کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ ایران کی میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی میں ترقی نے ثابت کیا کہ پابندیاں اسے کمزور کرنے کے بجائے اس کی خود انحصاری کو مضبوط کرتی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں، “سنیپ بیک” میکانزم کی دھمکی ایران پر دباؤ بڑھانے کی ایک اور کوشش ہے، لیکن ایران پر اسکا کوئی اثر نہیں ہوگا البتہ خطے میں کشیدگی مزید بڑھ جائے گی ۔ مغربی طاقتوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ایران نہ ماضی میں دھمکیوں کے آگے جھکا ہے اور نہ مستقبل میں ایسی نوبت آئےگی۔ ایران اپنے جوہری پروگرام پر مذاکرات کے لئے ہمیشہ تیار رہا ہے لیکن مغربی طاقتوں نے اسے ہمیشہ دھوکا ہی دیا ہے۔









آپ کا تبصرہ