اتوار 27 جولائی 2025 - 23:55
ریاستِ پاکستان کی زائرین کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے سفر پر پابندی سمجھ سے باہر ہے، محترمہ سائرہ ابراہیم

حوزہ/ایم ڈبلیو ایم گلگت شعبۂ خواتین کی سینئر رہنما محترمہ سائرہ ابراہیم نے کہا ہے کہ ملت جعفریہ کی اُمنگوں کے برعکس بائی روڈ چہلم امام حسین علیہ السّلام پر جانے پر پابندی بڑی افسوسناک خبر ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایم ڈبلیو ایم گلگت شعبۂ خواتین کی سینئر رہنما محترمہ سائرہ ابراہیم نے کہا ہے کہ ملت جعفریہ کی اُمنگوں کے برعکس بائی روڈ چہلم امام حسین علیہ السّلام پر جانے پر پابندی بڑی افسوسناک خبر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ رواں برس پاکستانی زائرین کو بائی روڈ زیاراتِ مقدسہ کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ نہ صرف زائرینِ عاشقِان اہلِ بیتؑ کے جذبات کے منافی ہے، بلکہ ایک طویل عرصے سے جاری اس روحانی و معنوی سلسلے کو مایوسی کی دھند میں لپیٹنے کی مذموم کوشش بھی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے ریاستِ پاکستان کا زائرین کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے اُن کے سفر کو ہی روک دینا سمجھ سے باہر ہے یہ وہ فیصلہ ہے جو بنیادی انسانی مذہبی آزادی کے منافی ہے جو کہ کسی غیر اسلامی حکومت بھی کرنے سے گریز کرتی، مگر یہاں ایک شیعہ وزیر داخلہ کی موجودگی میں ملت جعفریہ کے جذبات کو یوں مجروح کیا گیا کہ جیسے ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے بجائے، ملت کے سینے پر ایک اور پھتر رکھ دیا گیا جو ناقابلِ قبول ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست نے وزارت داخلہ کے ذریعے ایسے اقدامات کرکے ریاستی کمزوری دکھائی ہے، لیکن مرضی کے فیصلوں پر طاقت کے ذریعے عمل درآمد کیا جارہا ہے شاید اس لیے کہ حکومت کے تعصب پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایک جانبدار حکومت نے جب ملتِ جعفریہ کے خلاف کسی اقدام کی جسارت نہ کی، تو اسی ملت سے تعلق رکھنے والے فرد کو ہی متنازعہ فیصلوں کی ڈھال بنا دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہی صورتحال دارالحکومت اسلام آباد میں بھی دیکھی گئی، جہاں محرم الحرام کے جلوسوں، مجالس اور روایتی عزاداری کو محدود کرنے کے لیے پولیس و انتظامیہ کے اعلیٰ شیعہ افسران کو بطور ڈھال پیش کیا گیا۔ اُن کے ذریعے جلوس کے روٹ تبدیل کرنے کی سازش بھی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ اگر ملت جعفریہ کے اپنے نمائندے اور افسران، شعائرِ حسینؑ کے تحفظ میں پسپائی اختیار کریں تو پھر اس ریاست میں کس پر اعتبار کیا جائے؟ جب تعصب، اہلِ تعصب کے ہاتھوں نہیں، بلکہ اپنے ہی ہم عقیدہ افراد کے ذریعے نافذ کیا جائے تو پھر یہ ملت کس در پر فریاد لے کر جائے؟یہ وقت ہے کہ ملت جعفریہ کا ہر فرد، ہر ذی شعور شخص، اس طرزِ حکمرانی اور ان پالیسیوں پر سوال اٹھائے، جو ظاہری ہم مسلک افراد کے ہاتھوں ملت کے خلاف نافذ کی جا رہی ہیں۔ یہ سوال صرف ایک زیارت یا ایک جلوس کا نہیں، بلکہ ملت کے بنیادی مذہبی و شہری حقوق کا ہے؛ ملت کو اس شیعہ دشمنی پر آواز اٹھانی چاہیے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha