حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا حافظ سید ذہین علی نجفی ایک شیعہ اسلامی اسکالر ہیں جن کا تعلق پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر سے ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پاکستان میں حاصل کی اور اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے نجفِ اشرف (عراق) کا رخ کیا، جہاں آپ اس وقت مقیم ہیں۔ مولانا نجفی اپنی تحقیق و تدبر پر مبنی خطاب و تحریر کے ذریعے قوم کی فکری رہنمائی اور دینی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔
حوزہ نیوز نے حالیہ حالات و واقعات کے تناظر میں مولانا نجفی سے خصوصی گفتگو کی، جس میں انہوں نے نہایت خلوص اور تدبر کے ساتھ امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور ان کے حل پر روشنی ڈالی ہے۔
حوزہ نیوز: مولانا صاحب، آپ کا شکریہ کہ آپ نے وقت نکالا۔ موجودہ حالات میں فرقہ وارانہ اشتعال اور "توہین" جیسے الزامات کا بہت زیادہ چرچا ہے۔ آپ اس صورتحال کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
مولانا ذہین علی نجفی: ہم اس وقت ایک نہایت نازک اور خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ مذہبی جذبات کو بھڑکانے، فرقہ وارانہ نعروں کے ذریعے اشتعال پھیلانے، اور "توہین" و "گستاخی" جیسے سنگین الزامات کی آڑ میں ملک کے پرامن ماحول کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر مکتبِ اہلِ بیتؑ کے ماننے والوں کو محدود کرنے اور ان کے آئینی و شرعی حقوق کو سلب کرنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے، جو صرف ایک مکتب کے خلاف نہیں بلکہ پورے دین اور ملت کے اتحاد کے خلاف ایک گہری سازش ہے۔
حوزہ نیوز: آپ دیگر مکاتب فکر کے علماء اور پیروکاروں سے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
مولانا سید ذہین نجفی: ہم مؤدبانہ گزارش کرتے ہیں کہ آپ کو اختلاف کا حق حاصل ہے، اور یہ حق خود دین اسلام نے دیا ہے۔ مگر اختلاف تحقیق، مکالمہ، اور علمی گفتگو کے ذریعے ہونا چاہیے، تہذیب اور اصولوں کے دائرے میں رہ کر۔ الزام، تحقیر اور دباؤ سے صرف نفرت جنم لیتی ہے، اصلاح نہیں۔ ہم دعوت دیتے ہیں کہ آئیں، دلیل کی روشنی میں بات کریں، ادب سے گفتگو کریں۔ کسی بھی مقدس ہستی یا مسلک کے خلاف زبان درازی یا تحقیر کسی بھی طور قبول نہیں۔
حوزہ نیوز: توہین و گستاخی کے الزامات کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
مولانا سید ذہین نجفی: توہین اور گستاخی جیسے حساس الزامات کو معاشرتی دباؤ، ذاتی عناد، یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا ایک انتہائی خطرناک روش ہے۔ اس سے صرف فرقہ واریت اور خون خرابہ پھیلتا ہے۔ ایسی صورت حال میں قانون اور شریعت کی بالادستی ضروری ہے، نہ کہ جذباتی ہجوم یا سوشل میڈیا پر اٹھنے والا شور۔
حوزہ نیوز: علمائے کرام اور دانشور طبقے کی کیا ذمہ داری ہے؟
مولانا سید ذہین نجفی: تمام مسالک کے علما کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو جذبات کی بجائے علم، عقل، اور شریعت کے اصولوں پر استوار طرزِ عمل اپنانے کی تلقین کریں۔ فتاویٰ، خطابات، اور بیانات میں کسی دوسرے مکتب کی تضحیک یا تکفیر کے بجائے تحقیق، اصلاح، اور احترام کو بنیاد بنایا جائے۔
حوزہ نیوز: ریاستی اداروں اور انتظامیہ کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
مولانا سید ذہین نجفی: ریاست اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی غیر جانبدار بالادستی کو یقینی بنائیں۔ ایسے معاملات میں جذباتی ہجوم کے دباؤ میں آکر فیصلے کرنا نہایت خطرناک ہو سکتا ہے۔ اگر انتظامیہ نے جانبداری کا تاثر دیا یا تساہل سے کام لیا، تو یہ کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتا ہے۔ جھتے بازی، خودساختہ فتوے، اور ذاتی دشمنیوں کو مذہبی رنگ دینے کی ہر کوشش کی روک تھام ہونی چاہیے۔
حوزہ نیوز: آخر میں آپ قوم کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
مولانا سید ذہین نجفی: ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو نفرت، تعصب، اور قتل و غارت کی وراثت دینا چاہتے ہیں؟ یا ایک ایسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں جہاں ہر مکتب و مسلک کو اپنے نظریے کے مطابق جینے کا حق حاصل ہو، اور سب مل کر دین و ملت کی خدمت کریں؟ آئیے علم کی طرف آئیے، مکالمے کی طرف آئیے، عدل و انصاف کی طرف آئیے۔ اسلام تحقیق، تہذیب اور عقل کا دین ہے — جذباتی شور کا نہیں۔









آپ کا تبصرہ