تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی| امیر کلام امیر بیان مولائے متقیان امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: "أَنَّ قِیمَةَ کلِّ امْرِئٍ وَ قَدْرَهُ مَعْرِفَتُهُ" (معاني الأخبار : 1/2) ہر انسان کی قدر و قیمت اس کی معرفت کے مطابق ہے؛ یعنی جس کے پاس جتنی معرفت ہے اس کی اتنی ہی قدر و قیمت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ معرفت ہے کیا؟ تو اس کا جواب بھی معصومین علیہم السلام کی روایات میں موجود ہے۔ جیسا کہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: "أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِيَعْرِفُوهُ فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَنْ سِوَاهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَمَا مَعْرِفَةُ اللَّهِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِي يَجِبُ عَلَيْهِمْ طَاعَتُه" (علل الشرائع ج1 ص9)
"اے لوگو! بے شک اللہ جلّ ذکرہ نے بندوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اس کی معرفت حاصل کریں (اسے پہچان لیں)، پس جب وہ اُسے پہچان لیں تو اُس کی عبادت کریں اور جب اُس کی عبادت کریں تو اُس کی عبادت کے ذریعہ غیر (خدا) کی عبادت سے بے نیاز ہو جائیں۔"
پس ایک شخص نے عرض کیا: اے فرزندِ رسولِ خدا! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اللہ کی معرفت کیا ہے؟
"امام علیہ السلام نے فرمایا: ہر زمانے کے لوگوں کے لئے اپنے زمانے کے امام کی معرفت ہے جس کی اطاعت ان پر لازم ہے۔"
مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہوتا ہے کہ عصر غیبت کبری میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی معرفت انتہائی ضروری ہے، کیونکہ جس کو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی معرفت نہیں اسے اللہ کی معرفت نہیں، جسے اللہ کی معرفت نہیں وہ اللہ کی عبادت نہیں کر سکتا اور جو اللہ کی عبادت نہیں کر سکتا وہ غیر خدا کی عبادت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا اور ایسے انسان کی نہ کوئی قدر و قیمت ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت ہے۔
چونکہ عقیدہ امامت کا فائدہ جہاں دنیا میں ہے وہیں آخرت میں بھی ہے۔ لہذا جس کا عقیدہ امامت درست نہیں ہوگا یعنی جسے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی معرفت نہیں ہوگی تو وہ جہاں دنیا میں نقصان اٹھائے گا وہیں آخرت میں بھی اس کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "إنّما کلّف الناس ثلاثة: معرفة الأئمّة و التسلیم لهم فیما ورد علیهم و الردّ إلیهم فیما اختلفوا فیه" (وسائل الشیعہ، جلد 27 صفحہ 67) "لوگوں کی 3 ذمہ داریاں ہیں: ائمہ کی معرفت، ان کے سامنے تسلیم و فرمانبرداری، اور جس معاملے میں اختلاف ہو وہاں امور کو ان کے سپرد کرنا۔"
اسی طرح روایت میں ہے کہ "مَنْ شَک فِی أَرْبَعَةٍ فَقَدْ کفَرَ بِجَمِیعِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَک وَ تَعَالَی أَحَدُهَا مَعْرِفَةُ الْإِمامِ فی کلِّ زَمَانٍ وَ أَوَانٍ بِشَخْصِهِ وَ نَعْتِهِ" (بحار الانوار، جلد 69 صفحہ 135)جس نے 4 باتوں میں شک کیا اس نے گویا اللہ کی تمام نازل کردہ چیزوں سے کفر (انکار) کیا، ان میں سے ایک ہر دور میں امام کی معرفت کہ خود امام کو ان کے صفات کے ساتھ پہچانے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "مَنْ أَنْکرَ الْقَائِمَ مِنْ وُلْدِی فِی زَمَانِ غَیبَتِهِ فَمَاتَ فَقَدْ مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیةً" (صدوق، جلد2، صفحہ 412) جس نے بھی میرے فرزند قائم کا اس کی غیبت کے زمانے میں انکار کیا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔"
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ "مَنْ بَاتَ لَیلَةً لَا یعْرِفُ فِیهَا إِمَامَهُ مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیةً" (نعمانی،صفحہ 127)جو اس عالم میں رات بسر کرے کہ اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔
یعنی اگر کسی کو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی معرفت نہیں تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے اور جس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔ نہ صرف آخرت بلکہ دنیا میں بھی اسے نقصان اٹھانا پڑے گا۔ کیونکہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا انکار صرف ان کا انکار نہیں بلکہ انکار رسالت ہے۔ جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "مَنْ أَنْكَرَ اَلْقَائِمَ مِنْ وُلْدِي فَقَدْ أَنْكَرَنِي" (کمال الدین جلد 2، صفحہ 412) جس نے میرے فرزند قائم کا انکار کیا اس نے گویا میرا انکار کیا۔
یعنی امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا منکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے، ظاہر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کا انکار کرے وہ دائرہ اسلام میں نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اسلام کے احکام نافذ ہوں گے۔ اس کا صرف باطن نجس نہیں ہے بلکہ ظاہر بھی نجس ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی معرفت حاصل کی جائے تاکہ اسلام و ایمان باقی رہے۔
معرفت امام کے سلسلے میں روایات کثرت سے موجود ہیں جن میں سے ایک مندرجہ ذیل ہے:
ہشام بن سالم نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "القائم من ولدي، اِسْمُهُ اِسْمِي، و كُنْيَتُهُ كُنْيَتِي، و شَمَائِلُهُ شمائلى، و سُنَّتُهُ سُنَّتِي، يُقِيمُ اَلنَّاسَ عَلَى مِلَّتِي و شَرِيعَتِي، و يدعوهم إلى كتاب رَبِّي، مَنْ أَطَاعَهُ أَطَاعَنِي، و مَنْ عَصَاهُ عَصَانِي، و مَنْ أَنْكَرَ غَيْبَتَهُ فَقَدْ أَنْكَرَنِي، و مَنْ كَذَّبَهُ فَقَدْ كَذَّبَنِي، و مَنْ صَدَّقَهُ فَقَدْ صَدَّقَنِي، إِلَى اَللَّهِ أَشْكُو اَلْمُكَذِّبِينَ لِي فِي أَمْرِهِ، و اَلْجَاحِدِينَ لِقَوْلِي فِي شَأْنِهِ، و اَلْمُضِلِّينَ لامّتي عَنْ طَرِيقَتِهِ و سَيَعْلَمُ اَلَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ" (کمال الدین، جلد2، صفحہ 411)
"قائم میری اولاد میں سے ہے۔ اس کا نام میرا نام اور اس کی کنیت میری کنیت ہے۔ وہ صورت، رنگ اور چہرے کے اعتبار سے میرے مانند ہوگا۔ مہدی میری سنت کے ساتھ ظہور کرے گا، لوگوں کو میری ملت و شریعت کی طرف دعوت دے گا اور انہیں کتابِ خدا کی طرف بلائے گا۔ پس جو اس کی اطاعت کرے گا اس نے میری اطاعت کی، اور جو اس کے حکم کی نافرمانی کرے گا اس نے میرے حکم سے سرکشی کی۔ جو اس کی غیبت کا انکار کرے گا اس نے میرا انکار کیا، جو اسے جھٹلائے گا اس نے مجھے جھٹلایا اور جو اس کی تصدیق کرے گا اس نے میری تصدیق کی۔ میں اللہ کے حضور شکایت کرتا ہوں ان لوگوں کی جو اس کے بارے میں میری کہی باتوں کو جھٹلائیں گے، میرے کلام کا انکار کریں گے اور میری امت کو اس کے راستے سے ہٹائیں گے۔ اور بہت جلد ظلم کرنے والے اپنے اعمال کا انجام جان لیں گے۔"
مذکورہ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جو بھی امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے سلسلہ میں کوتاہی کرے گا، انکار کرے گا، ان کے سلسلہ میں احادیث نبوی کا انکار کرے گا، لوگوں کو ان کے راستے سے ہٹائے گا، نظام ہدایت کے بجائے گمراہی اور ضلالت کی راہ دکھائے گا وہ ظلم کرنے والوں میں شمار ہوگا، قرآن کریم کی روشنی میں ظلم کرنے والے نہ ہی قابل ہدایت ہیں اور نہ ہی لائق قیادت ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جہنمیوں کی نہ کوئی قدر و قیمت ہے اور نہ کوئی اہمیت ہے لہذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام زمانہؑ کی معرفت نہیں تو کوئی قدر و قیمت نہیں۔









آپ کا تبصرہ