منگل 9 ستمبر 2025 - 21:49
وحدت کا اسلامی نقطۂ نظر (قسط 1)

حوزہ/اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے، اس سے مراد مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراؤ اور تنازعے سے گریز ہے۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔

تحریر: مولانا ہلال اصغر ہندی

حوزہ نیوز ایجنسی| وحدت اسلامی ایک ایسا بنیادی تصور ہے جو امت مسلمہ کی مضبوطی، یکجہتی اور اجتماعی تحفظ کے لیے پیش کیا گیا۔ اہل تشیع کے نزدیک وحدت کا مطلب صرف یکسانی عقائد نہیں بلکہ فقہی اختلافات کے باوجود مشترکہ امور میں تعاون، دشمن کے مقابلے میں اتحاد اور معاشرتی و دینی یکجہتی ہے۔ یہ مقالہ وحدت کے لغوی اور اصطلاحی معنی، تاریخی پس منظر، اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات، عملی مظاہر، مراجع کرام کے بیانات اور عصرِ حاضر میں اس کی ضرورت پر روشنی ڈالتا ہے۔

مقدمہ

ہفتہ وحدت ایک ایسا تصور ہے جو عالم اسلام میں اتحاد و اخوت کے فروغ کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ ١٢ ربیع الاول (اہل سنت کے نزدیک ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ١٧ ربیع الاول (اہل تشیع کے نزدیک ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیانی ایام پر مشتمل ہے۔
اس ہفتے کا مقصد امت مسلمہ کے اندر فرقہ وارانہ اختلافات کو کم کرنا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کی روشنی میں اتحاد و یگانگت کو فروغ دینا ہے۔

وحدت کے معنی و مفہوم

١: وحدت کے لغوی معنی

لفظ وحدت عربی مادہ وحد سے نکلا ہے، جس کے بنیادی معنی درج ذیل ہیں:
ایک ہونا
یکتا ہونا
اجتماع و اتصال

راغب اصفہانی نے لکھا ہے: الوَحدة ضد التفرقة، و هی دالة علی الانضمام۔ راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، مادہ وحد۔
یعنی وحدت تفرقے کی ضد ہے اور اس کا مطلب ہے جُڑ جانا، یکجا ہونا۔

٢: وحدت کا اصطلاحی مفہوم (اہل تشیع)

اہل تشیع کے علماء وحدت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

احترام متقابل:
ایک دوسرے کے عقائد و مقدسات کا احترام۔

مشترکہ امور میں تعاون:
قرآن کریم، سنت اور اسلام کے بنیادی اصولوں میں یکجہتی۔

تفرقہ سے اجتناب:
دشمن کے فائدے کے لیے اندرونی اختلافات کو ہوا نہ دینا۔

عملی اتحاد:
معاشرتی، سیاسی اور دینی میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون۔
یہ وحدت، صرف زبانی یا نظریاتی نہیں، بلکہ عملی اور اجتماعی طور پر امت کی طاقت کے لیے ضروری ہے۔

پس اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے، اس سے مراد ہے مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراؤ اور تنازعے سے گریز۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔
مسلمان قوموں کے درمیان اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ حرکت کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوموں کے درمیان پائے جانے والے ایک دوسرے کے سرمائے اور دولت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
امام خمینی رہ فرماتے ہیں اتحاد بین المسلمین کا مطلب مختلف فرقوں کا اپنے مخصوص فقہی اور اعتقادی امور سے اعراض اور روگردانی نہیں ہے، بلکہ اتحاد بین المسلمین کے دو مفہوم ہیں اور ان دونوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔
پہلا مفہوم یہ کہ گوناگوں اسلامی مکاتب فکر، جن کے اندر بھی کئی ذیلی فقہی اور اعتقادی فرقے ہوتے ہیں، دشمنان اسلام کے مقابلے میں حقیقی معنی میں آپس میں تعاون اور ایک دوسرے کی اعانت کریں اور ہم خیالی اور ہمدلی برقرار کریں۔
دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے مختلف فرقے خود کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کریں، ہم خیالی پیدا کریں، مختلف فقہی مکاتب کا جائزہ لیکر ان کے اشتراکات کی نشاندہی کریں۔
علما و فقہا کے بہت سے فتوے ایسے ہیں جو عالمانہ فقہی بحثوں کے ذریعے اور بہت معمولی سی تبدیلی کے ساتھ دو فرقوں کے ایسے فتوے میں تبدیل ہوسکتے ہیں، جو ایک دوسرے کے بہت قریب ہوں۔ یہ عظیم مجموعہ جس کا نام امت مسلمہ ہے۔

٣: وحدت کے اسلامی منابع

(الف) قرآن

إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ. قرآن مجید، سورۃ الأنبیاء، آیت نمبر ٩٢۔
بیشک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں ہی تمہارا رب ہوں، پس میری ہی عبادت کرو۔
شیعہ مفسرین کی نظرمیں آیت کا مفہوم

شیعہ علماء کے نزدیک یہ آیت اس بات کی تصدیق ہے کہ:
١: امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک واحد امت ہے۔
٢: اللہ کی عبادت و اطاعت سب مسلمانوں کے لیے بنیادی فرض ہے۔
٣: اختلافات اور فرقہ واریت کو اللہ نے پسند نہیں کیا، کیونکہ امت کا اصل مقصد توحید کی خدمت ہے۔
تفسیر المیزان میں علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں قرآن واضح کر رہا ہے کہ تمام امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مختلف فرقوں کے باوجود ایک ہی امت ہے، اور اللہ کی عبادت سب کا مشترکہ فریضہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے امت کو ایک وحدت میں باندھ کر فرمایا کہ عبادت صرف اسی کی طرف ہونی چاہیے۔ اختلاف اور تنازعہ اس مقصد کے خلاف ہے۔ تفسیر المیزان، ج ۷، ص ۳۵۶۔

اور تفسیر الصافی میں علامہ صافی گلپایگانی نے کچھ اسطرح سے قلمبند کیا کہ اس آیت کو امت کی روحانی یکجہتی اور توحید کے پیغام کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
یہ آیت امت کے تمام افراد کے درمیان اتحاد اور اللہ کی عبادت میں یکسانیت کا حکم دیتی ہے۔ تفسیر الصافی، ج ۲، ص ۱۸۹۔

۲: سنی مفسرین کی نظر میں آیت کا مفہوم

سنی مفسرین بھی اس آیت کو امت کی وحدت اور توحید کی عبادت کے تناظر میں دیکھتے ہیں:
١: تمام پیروکار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک امت ہیں۔
٢: اللہ کی عبادت میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔
٣: امت کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا بنیادی ذریعہ قرآن اور سنت ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں ابن کثیر لکھتے ہیں کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت کو ایک ہی امت قرار دے کر فرقہ بندی اور جھگڑے سے بچنے کی ہدایت دی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی یکجہتی کے لیے واضح فرمایا کہ عبادت صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ تفسیر ابن کثیر، ج ۳، ص ۱۵۷۔

تفسیر الطبری میں جناب طبری نے اس آیت کو امت کی اجتماعی اور روحانی یکجہتی کے طور پر بیان کیا اور فرمایا کہ اختلافات صرف دنیاوی معاملات تک محدود رہنے چاہئیں، نہ کہ عبادت اور ایمان میں۔
تفسیر الطبری، ج ۹، ص ۴۲۵‌۔
امت کو ایک امت واحدہ کے طور پر دیکھنے اور مشترکہ مرکز (اللہ اور اس کے احکام) میں جُڑنے کی تعلیم۔
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا.
قرآن مجید، سورۃ آل عمران، آیت نمبر ١٠٣۔
اور سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور مت بٹو۔ متفرق نہ ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متحد رہنے اور فرقہ بندی سے بچنے کا حکم دیا ہے۔
حبل اللہ یعنی دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا، قرآن، سنت، اور اہل بیت کی رہنمائی پر قائم رہنا ہے۔
اختلاف اور انتشار سے اسلام کی کمزوری پیدا ہوتی ہے، اتحاد سے قوت آتی ہے؛ یہ آیت اتحاد اور امت مسلمہ میں یکجہتی کی تاکید کرتی ہے اور مسلمانوں کو نصیحت کرتی ہے کہ وہ اللہ کی ہدایت اور دین کو مضبوطی سے پکڑے رہیں اور آپس میں اختلاف و تفریق سے بچیں۔

(ب) اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات

امام علی علیہ السلام
اللَّهَ اللَّهَ فِي الْقُرْآنِ لَا يَسْبِقُكُمْ بِالْعَمَلِ بِهِ غَيْرُكُمْ۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢، حکمت ٢٠٧۔
امت کو قرآن پر متحد رہنے اور اختلافات کے باوجود عمل کی اہمیت۔

امام جعفر صادق علیہ السلام
صلّوا فی عشائرهم، وعودوا مرضاهم، واشهدوا جنائزهم۔ الکلینی، الکافی، ج٢، ص٢١٩۔
شیعہ اور اہل سنت کے درمیان عملی وحدت اور تعاون کی تعلیم۔

٤: عملی اہمیت

مشترکہ دینی محافل:
شیعہ و سنی علماء ایک ساتھ محافل میلاد اور تقریبات منعقد کرتے ہیں۔

بین الاقوامی کانفرنسز:
وحدت اسلامی کانفرنس میں دنیا بھر کے علما و دانشور شریک ہوتے ہیں۔

علمی مکالمات: اختلافات کو علمی سطح تک محدود رکھ کر مکالمہ اور تحقیق کے ذریعے کم کیا جاتا ہے۔

عوامی شعور:
میڈیا اور تعلیمی اداروں میں اتحاد کا پیغام عام کیا جاتا ہے۔

٥: عصر حاضر میں وحدت کی ضرورت

امت مسلمہ مختلف بحرانوں (فلسطین، کشمیر، یمن، عراق وغیرہ) کا شکار ہے۔
داخلی انتشار اور بیرونی سازشیں امت کی کمزوری کا سبب ہیں۔
وحدت کے ذریعے امت نہ صرف استعماری طاقتوں کے مقابلے میں مضبوط ہو سکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر اسلام کا پرامن اور مضبوط چہرہ بھی اجاگر کر سکتی ہے۔

نتیجہ

اہل تشیع کے نزدیک وحدت صرف یکسانی عقائد نہیں بلکہ فقہی اختلافات کے باوجود امت کے مشترکہ مفادات، دشمن کے مقابلے میں اتحاد، اور اجتماعی و عملی یکجہتی ہے۔
قرآن، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی تعلیمات امت کی وحدت اور یکجہتی کی واضح رہنمائی کرتی ہیں۔ عصر حاضر میں وحدت امت کی بقاء، عزت اور طاقت کا بنیادی ذریعہ ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha