حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ خواہران قم و جامعۃ الزہراء (س) کی اساتید اور ممتاز طلبہ کی کمیٹی کی سرپرست محترمہ طاہرہ حیدری مجدنے حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندہ کو دئے گئے ایک جامع انٹرویو میں جمہوری اسلامی نظام میں "مقدس اتحاد" کے تصور پر تفصیل سے بات چیت کی۔
انہوں نے کہا: اتحاد و وحدت کو ایک سیاسی نعرے یا عارضی بیانیہ سے بالاتر قرار دیتے ہوئے اسے اسلام کے بقا اور حق کے محاذ کی فتح کے لیے ایک وجودی، اسٹریٹجیک اور تہذیب ساز ضرورت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق، اتحاد داخلی سطح پر قومی یکجہتی، نظام اسلامی کی حفاظت اور سافٹ وارز کا مقابلہ کرنے کی بنیاد کے طور پر اور عالمی سطح پر مزاحمتی محاذ کی مضبوطی اور اسلامی تہذیب کے ظہور کے لیے ایک عنصر کے طور پر اہمیت رکھتا ہے۔
محترمہ طاہرہ حیدری مجدنے مزید کہا: اس فریم ورک میں دینی اور حوزوی میڈیا اتحاد کے بیانیہ کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ میڈیا کو مصنوعی دو قطبیت، تصادم پیدا کرنے اور سطحی تشریحات سے دور رہ کر اسلام محمدی (ص) کی گہری اور حقیقت پسندانہ وضاحت کے ذریعہ اتحاد کی ضرورت کی اجتماعی فہم پیدا کرنی چاہیے نیز میڈیا تقسیم پیدا کرنے کے حوالے سے دشمن کے مقاصد کے بارے میں آگاہی دلا کر اور اسلامی و انقلابی شناخت کو مضبوط کر کے شناختی جنگ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
انہوں نے خواتین کے کردار، خاص طور پر جامعۃ الزہراء (س) جیسے اداروں کے ذریعہ مستقبل کی نسل کی تربیت اور اسلامی تہذیب کی تعمیر میں حصہ لینے پر بھی روشنی ڈالی اور اتحاد برقرار رکھنے میں طلباء اور اساتذہ کی ذمہ داری پر زور دیا۔
انہوں نے کہا: عالم اسلام میں اتحاد کے موضوع میں ایک بہت اہم عامل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک رہی ہے، اب بھی ہے اور رہے گی۔ درحقیقت، ہم قرآن کریم کی آیات اور معصومین (ع) کی روایات میں بھی اس مسئلے کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: «وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا» "اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (دین) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو" (سورہ آل عمران، آیت 103)۔ اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ حق کو تھامنا اور وحدت کلمہ کہ جو درحقیقت توحیدی نظریہ اور توحید پر مبنی زندگی کا نام ہے، دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کی زندگی کی ضروریات میں سے ہے لیکن اللہ تعالیٰ جس بات پر زور دیتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کام "جمیعاً" (سب مل کر) انجام پائے۔ یعنی صرف میرا اکیلا ہی الہٰی اور توحیدی نظرئیے کا حامل ہونا، زندگی کے معاملات میں صرف خدا کو دیکھنا اور انفرادی، سماجی، خاندانی اور سیاسی امور میں توحید محور عمل کرنا کافی نہیں ہے اور اس کی کوئی اثر انگیزی نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پورا مسلم معاشرہ اس مسئلے پر توجہ دے۔









آپ کا تبصرہ