حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے ممتاز خطیب و مبلغ، جامعۃ الامام امیرالمؤمنین علیہ السلام (نجفی ہاؤس-ممبئی) کے استاد، ٹی چینل “ورلڈ اسلامک نیٹ ورک (WIN)” کے مشیر اور مجلہ “جعفری آبزرور” کے مدیر حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد ذکی حسن نے اپنے ایران کے سفر کے دوران حوزہ نیوز ایجنسی کا دورہ کیا اور اپنی خصوصی گفتگو میں اسلام کے تعارف، مذہبی بیداری، اتحادِ امت، اور عصرِ حاضر میں تبلیغی ذمہ داریوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ اس مکالمے میں مولانا نے اسلام کو عقل و منطق کا مذہب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر انسان فطرتِ سلیم اور غیر متعصبانہ ذہن رکھتا ہو تو اسلام کی حقانیت اس پر واضح ہو جاتی ہے۔
حوزہ: آپ نے تبلیغ اور مجالس کے میدان میں ہندوستان کے ساتھ ساتھ بیرونِ ممالک میں بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ موجودہ حالات کے پیشِ نظر آپ کے خیال میں آج مذہبِ تشیع کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟
مولانا سید ذکی حسن: دنیا آج اس بات کی منتظر ہے کہ کوئی ایسی قوم ہو جو حق و سچ کے راستے پر قائم رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ یہی شیعہ قوم ہے جو ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑی رہی ہے اور آج بھی حقانیت کی نمائندگی کر رہی ہے۔
دنیا مایوسی میں ڈوبی ہوئی ہے، مگر امید کی واحد کرن قومِ شیعہ ہے، جو امامِ زمانہؑ پر اپنے ایمان کے باعث امید اور یقین کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
دنیا مایوسی کے اندھیروں میں کسی اُمید کی کرن تلاش کر رہی ہے، اور یہ اُمید صرف قومِ شیعہ میں نظر آتی ہے۔ اس کی بنیاد وہ عقیدہ ہے جو امامِ زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف پر ایمان کی صورت میں ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔
یہی عقیدہ ہمیں دنیا کے ہر کونے میں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ مختلف تہذیبوں، زبانوں اور ثقافتوں کے باوجود ہم سب ایک مرکز سے وابستہ ہیں، اور یہی وحدت ہماری اصل طاقت ہے۔

حوزہ: آپ کے خیال میں میڈیا کی دنیا میں علماء اور طلاب کا کردار کیا ہونا چاہیے؟
مولانا سید ذکی حسن: آج دنیا ایک ’’عالمی گاؤں‘‘ بن چکی ہے، خبریں منٹوں نہیں بلکہ سیکنڈز میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچتی ہیں۔ میڈیا اب صرف خبر پہنچانے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ماحول اور ذہن بنانے کا سب سے مؤثر وسیلہ ہے۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم میڈیا کے میدان میں قدم بڑھائیں اور اپنی موجودگی کو مضبوط بنائیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی زبان کو معتبر اور قابلِ اعتماد بنائیں۔ میڈیا میں وہی زبان اثر رکھتی ہے جس پر لوگ بھروسہ کرتے ہیں۔ اگر ہماری زبان ’’ایمان والی زبان‘‘ بن جائے، تو لوگ دوسروں کی نہیں بلکہ ہماری بات سنیں گے۔
حوزہ نیوز ایجنسی نے قارئین کا اعتماد حاصل کیا ہے، کیونکہ دنیا بھر میں خبر تو ہر جگہ ملتی ہے، مگر معتبر خبر کا سرچشمہ صرف حوزہ نیوز ہے، اور یہی اس کی اصل قوت ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ "حوزہ نیوز ایجنسی" نے اسی اعتماد کو حاصل کیا ہے۔ دنیا بھر کے قارئین جانتے ہیں کہ خبر ہر جگہ ہے، لیکن معتبر خبر حوزہ نیوز پر ملتی ہے، اور یہی اس ادارے کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔

حوزہ: حال ہی میں ایران اور اسرائیل کے درمیان بارہ روزہ جنگ کے دوران آپ ہندوستان میں تھے۔ اُس وقت وہاں کا ماحول کیسا تھا، اور اس جنگ کے بعد عوامی سوچ میں کیا تبدیلی دیکھی گئی؟
مولانا سید ذکی حسن: اس جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کو جو کامیابی حاصل ہوئی، وہ بے مثال ہے۔ اس نے دنیا کو حیران کر دیا کہ ایک خدا پرست نظام کس حد تک مضبوط اور منظم ہے۔
یہ جنگ صرف اسلحے کی نہیں بلکہ فکر کی جنگ تھی۔ دنیا کو احساس ہوا کہ ایران کے پاس جو "فکرِ الٰہی" ہے، وہی اس کی اصل طاقت ہے۔
ہندوستان میں عام لوگوں کے ذہن میں یہ تصور تھا کہ اسرائیل ایک ناقابلِ شکست ملک ہے، جس کی انٹیلیجنس دنیا میں سب سے قوی ہے۔ لیکن اس جنگ نے یہ ثابت کر دیا کہ اصل کامیابی ایمان اور توحید کے ساتھ ہے، طاقت کے ساتھ نہیں۔
اس جنگ نے لوگوں کے دلوں میں یقین پیدا کیا کہ ایران تنہا نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے امامِ وقتؑ کی تائید موجود ہے۔ ہر لمحہ محسوس ہوتا تھا کہ الٰہی نصرت ایران کے ساتھ ہے، اور یہی سبب ہے کہ دشمن نے خود جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔

حوزہ: طلاب جب تعلیم مکمل کرکے اپنے وطن واپس لوٹتے ہیں تو ان کے لیے تبلیغ کے میدان میں کامیابی کے کیا اصول ہونے چاہئیں؟
مولانا سید ذکی حسن: طلاب کو چاہیے کہ وہ حوزہ علمیہ قم میں اپنے تعلیمی ایام کو سنجیدگی سے گزاریں، لیکن ساتھ ہی زمانے کے حالات سے بھی واقف رہیں۔
جب وہ اپنے ملک جائیں تو پہلے سے تحقیق کریں کہ وہاں کے سماجی و فکری حالات کیا ہیں، لوگوں کے ذہنوں میں کیا شبہات پائے جاتے ہیں، اور کس طرح کے سوالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
میں جب کسی نئے ملک جاتا ہوں تو پہلے وہاں کے حالات کا مطالعہ کرتا ہوں، شبہات اور سوالات کی فہرست تیار کرتا ہوں۔ اس تیاری کی وجہ سے وہاں جاکر گفتگو مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
ہمارے طلاب کو بھی یہی طریقہ اپنانا چاہیے۔ اپنے علما، مراجع اور رہبر کی رہنمائی میں اپنے ملک کی ضرورتوں کو سمجھ کر تبلیغی میدان میں قدم رکھنا چاہیے۔
حوزہ: بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ طلاب تعلیم مکمل کیے بغیر ہی تبلیغ کے لیے چلے جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فوراً کامیابی مل جائے۔ اس سوچ کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
مولانا سید ذکی حسن: ہر کام کے لیے ایک تدریجی راستہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص پہلے دن ہی کامیابی کے اعلیٰ درجے پر نہیں پہنچ سکتا۔
تبلیغ کے میدان میں بھی ابتدا میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑے علما نے بھی یہی راہ طے کی — پہلے قربانیاں دیں، مشقتیں اٹھائیں، پھر کامیاب ہوئے۔
اگر انسان کو ابتدا ہی میں تمام سہولتیں مل جائیں تو اس کے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔
مشکلات انسان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں، اس لیے طلاب کو چاہیے کہ صبر و استقامت سے جدوجہد کریں، کیونکہ یہی راستہ کامیابی اور بلندی کا سبب بنتا ہے۔
مشکلات ہی انسان کے لیے محرک بنتی ہیں۔ اسی لیے میں طلاب سے کہتا ہوں کہ صبر اور استقامت کے ساتھ میدان میں اتریں، کیونکہ یہی راہ انہیں بلند مقام تک پہنچاتی ہے۔

حوزہ: آخر میں حوزہ نیوز ایجنسی کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
مولانا سید ذکی حسن: میں دل کی گہرائیوں سے حوزہ نیوز ایجنسی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس ادارے نے اپنے آپ کو ایک معتبر، بامعنی اور بااعتماد ذریعۂ خبر کے طور پر منوایا ہے۔
جب دنیا جھوٹی اور منفی خبروں سے بھری پڑی ہے، تو حوزہ نیوز کی خبریں امید اور اطمینان کا باعث بنتی ہیں۔
اللہ کرے یہ ادارہ اسی اعتماد، خلوص اور ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھتا رہے۔










آپ کا تبصرہ