حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، ڈاکٹر عبدالمھیمن جامعہ ہری پور کے شعبہ دینیات سے منسلک ہیں، ستائیس برس سے درس و تدریس اور علمی تحقیق کے شعبے سے منسلک ہیں، آپ نے سات برس ملک سے باہر بھی تدریسی فرائض سر انجام دیئے ہیں، آپ ایک کالم نگار بھی ہیں (باقاعدگی سے روزنامہ مشرق اور مقامی اخبارات میں کالم لکھتے ہیں) اور سات کتابوں کے مصنف بھی ہیں، ڈاکٹر مھیمن کو ان کی خدمات کی وجہ سے دو بین الاقوامی ایوارڈوں کے لئے نامزد کیا گیا اور دو صدارتی اور دو قومی ایوارڈوں سے بھی نوازا گیا، پاکستان میں پہلی مرتبہ ملٹی میڈیا پر جمعے کا خطبہ دیتے ہیں۔ آپ "ہم ٹی وی" کے مبصرین میں بھی شامل ہیں، ریڈیو سمائل ایف ایم کے ساتھ بھی کئی برس سے منسلک ہیں، آپ دنیا کے کئی ممالک میں اپنا کام پیش کر چکے ہیں جن میں امریکہ، مالدیپ، برما، ملائیشیا، آسٹریلیا، آسٹریا، انڈونیشیا اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں۔
حوزہ نیوز کے نمائندہ نے ان سے شہید مقاومت سید حسن نصر اللہ اور موجودہ مسلمانوں کے حالات و واقعات پر گفتگو کی ہے۔ جسے حوزہ نیوز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ: شہید سید حسن نصر اللہ کی شخصیت کی جانب مختصر اشارہ کرتے ہوئے ان کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کریں۔
ڈاکٹر عبدالمھیمن:
میں سب سے پہلے حوزہ نیوز ایجنسی کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے جناب حسن نصراللہ شہیدؒ جیسی عظیم ہستی کے بارے میں اپنی آراء پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ مجھ ناچیز کے لئے یہ کسی بھی طرح سے یہ آسان نہیں ہے کہ میں جناب حسن نصراللہ شہیدؒ کی ہمہ گیر شخصیت کے گوشوں کا احاطہ کر سکوں۔
جناب حسن نصراللہ شہیدؒ ایک کثیر الجہت شخصیت کے مالک تھے، آپؒ اخلاقی و فکری اعتبار سے ایک اعلیٰ مقام کے حامل تھے، آپؒ کی گفتگو میں گہری تاثیر تھے اور لوگ آپؒ کی بات کو بڑے انہماک اور توجہ سے سنتے تھے، جناب حسن نصراللہ شہیدؒ کو اگر ایک پر اثر عوامی مقرر کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا، آپؒ کا خاصا تھا کہ آپؒ تمام تر حقائق اپنے سامعین کے سامنے رکھتے تھے اور سامعین کو یہ موقع فراہم کرتے تھے کہ وہ ان حقائق کی روشنی میں خود صحیح اور غلط کا فیصلہ کرسکیں، جناب حسن نصراللہ شہیدؒ ایک باعمل عالمِ دین تھے ، آپؒ نے نہ صرف دینی تعلیم حاصل کی بلکہ باقاعدہ سیاست کی تعلیم بھی حاصل کی،آپؒ ہمیشہ روایتی عبا اور سیاہ پگڑی میں نظر آتے تھے جس سے آپؒ کی شخصیت مزید پرکشش بن جاتی تھی، یہ آپؒ کی انہی صفات کا کمال تھا کہ آپؒ صرف بتیس سال کی عمر میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے، آپؒ نے اپنی ساری زندگی مظلموں اور بے کسوں کی مدد میں گزاری، جناب حسن نصراللہ شہیدؒ کی ایک بات جو مجھے بہت متاثر کرتی ہے وہ ان کی عالمی سیاسی منظر نامے پر گہری نظر تھی اور پاکستانی سیاست کے بارے میں ان کی آراء میری نظر میں ان کو ایک نڈر، بے باک اور دلیر رہنماء بنا دیتی ہیں۔

حوزہ: آپ کی نظر میں شہید مقاومت کے وژن کو کس طرح آگے بڑھایا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر عبدالمھیمن:
شہید حسن نصر اللہ صاحب کے خواب کی تکمیل اور آپؒ کے اہداف کا حصول درد دل رکھنے والے ہر انسان کی ذمہ داری ہے اور خصوصا ان لوگوں کی بڑی ذمہ داری ہے کہ جو شہید مقاومت کی زندگی میں ان کے نظریے کے ساتھ کھڑے رہے اور کسی نہ کسی طریقے سے اس کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے، جناب حسن نصراللہ شہیدؒ کی شہادت کے بعد ان کے خواب کی تکمیل اور ان کے اہداف کے حصول کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ اولا شہید حسن نصر اللہؒ کی شخصیت کے اعلیٰ کردار کو اپنی بساط کے مطابق اپنانے کی کوشش کی جائے اور زمانے اور حالات کی رعایت کے مطابق حضرت نصر اللہؒ کے خواب اور ان کے اہداف کو زندہ رکھا جائے اور ایک جامع اور مانع حکمت عملی کے ذریعے اس خواب کی تکمیل اور اس کے حصول کی جانب آگے بڑھا جائے۔
حوزہ: آیا شہید نصر اللہ کی شہادت کے بعد "مزاحمتی محور" کی حکمت عملی میں کوئی کمی یا تبدیلی آئی ہے یا ان کی شہادت نے اسے مزید مضبوط کیا ہے؟
ڈاکٹر عبدالمھیمن:
یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے اور شہید نصر اللہ کی شہادت سے ان کے مشن کو مزید تقویت ملی ہے بلا شبہ حسن نصر اللہ کی شہادت نے اس مشن کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اب یہ شہید حسن نصر اللہ کے حامیوں سمیت ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مشن کو مزید بہتر حکمت عملی کے ساتھ آگے لے کر جائیں۔
حوزہ / شہید کی پہلی برسی پر لاکھوں افراد کے اجتماع کو دیکھتے ہوئے آپ کی نظر میں یہ عوامی حمایت تحریک کے مستقبل کے لیے کس طرح مشعل راہ ہے؟
ڈاکٹر عبدالمھیمن:
جی بالکل لاکھوں افراد کا جمع ہونا اس بات کی نشانی ہے کہ جناب حسن نصراللہ شہیدؒ کی تحریک کو مکمل عوامی حمایت حاصل ہے، لاکھوں افراد کا اکٹھا ہونا اس عہد کی تجدید کا اعلان ہے کہ لوگ جناب حسن نصراللہ شہیدؒ کی تحریک کو زندہ رکھیں گے اور ان کے نقش قدم پہ چل کے ظلم اور استبداد کے خاتمے کی راہ پہ باوجود کئی مشکلات کے اپنا سفر جاری رکھیں گے۔

حوزہ: شہید نصر اللہ اپنی آخری سانس تک غزہ کی حمایت پر زور دیتے رہے۔ موجودہ حالات میں ہمیں اس سلسلے میں اپنی جدوجہد کو کس شکل میں جاری رکھنا چاہیئے؟
ڈاکٹر عبدالمھیمن:
جناب حسن نصراللہ شہیدؒ نے اپنی ساری زندگی بے کس اور مظلوم عوام کے حمایت میں گزاری ہے اور جس میں خاص طور پر غزہ کے نہتے مسلمان شامل تھے۔ کسی بھی ذی شعور انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے سامنے ہوتا ہوا ظلم دیکھتا رہے اور اس پر خاموش رہے، جناب حسن نصراللہ شہیدؒ کی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہمارے اندر یہ احساس زندہ رہے کہ غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ انسانی تاریخ کا بدترین ظلم ہو رہا ہے اور اس کے بعد ہم نے اس ظلم پر خاموش نہیں رہنا ہے، ہم دنیا کے جس حصے میں بھی ہیں اور جو کچھ بھی کر رہے ہیں ہم اپنی بساط کے مطابق غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت جاری رکھ سکتے ہیں جہاں تک ممکن ہو اور جس طرح ممکن ہو غزہ کے مسلمانوں کے بارے میں آواز بلند کرتے رہیں، وقتا فوقتا اس حوالے سے کسی نہ کسی قسم کی عملی سرگرمی میں شامل رہیں، ہر شخص اور جماعت یہ کوشش کرے کی کسی نہ کسی طرح اپنی حکومت پر یہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے کہ عالمی فورم پر غزہ کے مظلوم عوام کی آواز بنے۔









آپ کا تبصرہ