حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علمائے دین کا گمراہ کن افکار کی ترویج کے مقابلے میں رویہ محض ظاہری اقدام تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ اس کی تکمیل علمی وضاحت اور فکری رہنمائی سے کی جاتی ہے۔ آیتاللہ بروجردیؒ کی سیرت اس کی نمایاں مثال ہے۔
مرحوم حاج شیخ حسن نوری، مرحوم حاج احمد خادمی سے نقل کرتے ہیں کہ بروجرد میں اس زمانے میں، جب آیتاللہ بروجردیؒ وہاں مقیم تھے، چند بہائی افراد رہائش پذیر تھے جو لوگوں کو گمراہ کرنے میں سرگرم تھے۔
آیتاللہ بروجردیؒ نے اس وقت کے مقامی ذمہ داران سے مطالبہ کیا کہ ان افراد کو شہر سے نکالا جائے، تاہم حکام نے اس معاملے میں کوتاہی کی۔ آپؒ اس بات پر آمادہ نہ تھے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے تہران سے مداخلت کرائی جائے۔
احتجاج کے طور پر آیتاللہ بروجردیؒ نے شہر چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں عوام نے احتجاج کیا اور شہر میں شدید افراتفری پھیل گئی۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر بہائی افراد راتوں رات جان کے خوف سے شہر چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
بعد ازاں جب آیتاللہ بروجردیؒ شہر واپس آئے تو آپؒ نے فرمایا کہ چونکہ ان لوگوں نے کئی افراد کو گمراہ کیا ہے اور ان کے شبہات سے بعض لوگوں کے افکار متاثر ہوئے ہیں، اس لیے صرف ان کا شہر چھوڑ دینا کافی نہیں۔ چنانچہ آپؒ نے اپنی دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ماہِ رمضان میں ایک مکمل مہینہ امام زمانہؑ کے موضوع پر منبر سے خطاب کیا، تاکہ پھیلائے گئے شبہات کا علمی جواب دیا جا سکے۔
یہی علمی مجالس بعد میں معروف کتاب «منتخب الاثر» کی تالیف کا پس منظر بنیں، جو جناب آیتاللہ صافیؒ نے تحریر کی۔
ماخذ: جرعہای از دریا (آیتاللہ شبیری زنجانی)، جلد ۲، صفحہ ۵۷۸









آپ کا تبصرہ