تحریر و ترتیب: محمد وقار حسین مفکری (جامعۃ المصطفیٰ کراچی)
حوزہ نیوز ایجنسی| علامہ سید محمد حسین طباطبائیؒ بیسویں صدی عیسوی کی ایک جلیل القدر اور نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ آپؒ ایک عظیم فقیہ، فلسفی، مفسر اور متکلم تھے؛ انہوں نے اسلامی علوم، بالخصوص تفسیر اور فلسفہ کے میدان میں گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔ آپؒ کی علمی زندگی کا زیادہ تر حصہ قم ایران میں گزرا جہاں آپؒ نے نہ صرف اعلیٰ ترین اسلامی تعلیمات حاصل کیں، بلکہ خود بھی تدریس کے ذریعے ہزاروں تشنگانِ علم کو سیراب کرتے رہے۔
مختصر تعارف اور ابتدائی تعلیمی سفر
علامہ طباطبائیؒ کا تعلق ایران کے شہر تبریز کے ایک علمی گھرانے سے تھا۔ آپ نے سن ۲۴, ستمبر ۱۹۰۳ ء کو اپنے وجود سے دنیا کو رونق بخشا۔
ابتدائی تعلیم کے بعد آپؒ نجف اشرف تشریف لے گئے جہاں آپؒ نے آیت اللہ نائینیؒ، شیخ محمد حسین اصفہانیؒ، اور بالخصوص آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانیؒ جیسے اساطینِ علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ نجف میں، آپؒ نے روایتی علوم من جملہ فقہ و اصول اور ادبیات کے ساتھ ساتھ، فلسفہ، عرفان اور ریاضی میں بھی مہارت حاصل کی، جس نے آپؒ کے فکری افق کو وسعت دی۔
۱۹۴۵ء میں، آپؒ قم واپس تشریف لائے اور اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک وہی قیام فرمایا، جہاں آپؒ کی علمی سرگرمیاں عروج پر پہنچیں۔
اپنے بے شمار شاگردوں کو علم و فکر کے زیور سے آراستہ کیا، آپ کے شاگردوں میں شہید مرتضی مطہری، آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ مصباح یزدی اور شہید بہشتی کو دنیا میں چودویں صدی ہجری کے بااثر اور مشہور شیعہ علماء میں شمار کئے جاتا ہے۔ علاوہ ازیں فرانسسی فلسفی و مستشرق ہنری کربن کے ساتھ فلسفہ اور جدید مسائل پر علامہ کی گفت و شنید یورپ میں مکتب تشیع کے تعارف کا سبب بنی۔
علمی و فکری آثار کا تعارف
علامہ طباطبائیؒ کی علمی و فکری آثار بہت وسیع اور متنوع ہیں۔ آپؒ کی تحریروں میں فلسفہ، تفسیر، کلام، اور فقہ کے اہم موضوعات شامل ہیں۔ آپؒ کی سب سے نمایاں تصانیف درج ذیل ہیں۔
1.تفسیر المیزان فی تفسیر القرآن (جس کا اجمالی ذکر آگے کیا گیا ہے۔)
2.بدایۃ الحکمۃ و نہایۃ الحکمۃ
یہ کتابیں فلسفہ کی بنیادی اور اعلیٰ سطح کی تفہیم و تعلیم کے لیے تحریر کی گئیں ہیں جو کہ آج بھی حوزہائے علمیہ (دینی مدارس) کے نصاب میں شامل ہیں۔
3.اصول فلسفہ و روش رئالیزم
یہ کتاب مابعد الطبیعیات (Metaphysics) اور مغربی مادی فلسفوں کے تنقیدی تجزیے پر مشتمل ہے واضح رہے کہ اس کی افادیت کے پیشِ نظر شہید مرتضیٰ مطہریؒ نے اس پر شاندار حواشی بھی قلمبند کی ہے۔
4.رسالۃ الولایۃ
یہ عرفان اور معرفت کے موضوع پر ایک اہم کتاب ہے جس میں انسان کی روحانی ترقی اور قربِ الٰہی کے حصول کے مراحل کو بیان کیا گیا ہے۔
آپؒ نے اس تصنیف میں عقل، وحی اور عرفان کے درمیان ایک ہم آہنگی پیدا کرنے کی کامیاب سعی کی ہے، جس نے اسلامی فکر کو ایک جدید اور ٹھوس بنیاد فراہم کی۔
5. تفسیر المیزان فی تفسیر القرآن
علامہ طباطبائیؒ کا سب سے بڑا اور لازوال علمی کارنامہ آپؒ کی عظیم تفسیری تصنیف "تفسیر المیزان فی تفسیر القرآن" ہے، جو بیس جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ صرف ایک تفسیری مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ اسلامی علوم کا ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جو قرآن کے معارف کو معقول اور منظم انداز میں پیش کرتا ہے۔
تفسیر المیزان کا اسلوب "القرآن یُفَسِّرُ بعضُہ بعضًا" (قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے) ہے، جسے علامہؒ نے بڑے مؤثر، بلیغ انداز میں استعمال کیا ہے۔ یہ تفسیر درحقیقت "تفسیر قرآن بہ قرآن" کا بہترین نمونہ ہے۔
علامہؒ نے ہر آیت یا آیات کے مجموعے کی تشریح کرتے ہوئے درج ذیل اسالیب اپنائے ہیں۔
آیات کی لغوی اور نحوی وضاحت
آیات کی قرآنی آیات کی روشنی میں تفسیر
اہم قرآنی مسائل کی بحث: ہر آیت سے نکلنے والے فلسفیانہ، کلامی، فقہی، تاریخی، یا اخلاقی مسائل پر ایک مستقل عنوان (بحث روائی، بحث فلسفی، بحث اجتماعی) کے تحت بحث کی گئی ہے۔
روایات کا جائزہ
آپ نے معتبر شیعہ و سنی روایات کی روشنی میں مرسل، ضعیف اور موضوع روایات پر تنقید و تبصرہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ جامعیت اور علمی گہرائی و گیرائی ہی المیزان کو اپنے ہم عصر تفاسیر میں ممتاز کرتی ہے۔
خاتمہ:
علامہ طباطبائیؒ کی شخصیت علم و عمل کا مرقع تھی۔ آپؒ نے ایک ایسے دور میں اسلامی فلسفہ اور تفسیر کو نئی زندگی بخشی جب مغرب کے مادی افکار اسلامی دنیا میں تیزی سے سرایت کر رہے تھے۔ آپؒ کی خدمات، بالخصوص تفسیر المیزان، اسلامی علوم کے لیے ایک انمول اور لازوال سرمایہ ہے نیز آپؒ بجا طور پر بیسویں صدی کے احیاءِ کنندگانِ (مجددین) علومِ اسلامی میں شامل ہیں۔
علامہ محمد حسین طباطبائی ۱۵، نومبر ۱۹۸۱ کو تقریبا ۸۲ سال کی عمر میں وفات پائے۔ آپ کو حرم آل محمد علیھم السلام یعنی سر زمین قم مقدس میں دختر امام موسی الکاظم حضرت فاطمہ معصومہ علیہما السّلام کے حرم مبارک میں دفن کیا گیا۔









آپ کا تبصرہ