تحریر: دیانت حسین (جامعۃ المصطفی کراچی)
حوزہ نیوز ایجنسی| علامہ سید محمد حسین طباطبائیؒ 1903 میں تبریز (آذربائیجان) میں ایک علمی و دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی دینی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی، بعد ازاں نجف اشرف میں طویل مدت تک فقہ و اصول، فلسفہ، ریاضیات اور اخلاقی تربیت کے مراحل طے کیے۔آپ کا قیامِ قم ایران میں علمی احیاء کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ یہاں آپ نے تدریسِ فلسفہ اور علومِ قرآن کے ذریعے ایسی علمی فکری تحریک پیدا کی جس نے پورے عالمِ اسلام کو متاثر کیا۔ علمی تواضع، اخلاقِ عملی اور اخلاص آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔
علامہ طباطبائی کے اہم علمی و فکری خدمات (Academic & Intellectual Contributions)
علامہ صاحب فکرِ اسلامیِ اور معارف اہلِ بیتؑ کے ایک نمایاں مفکر اور عالم دین ہیں جنہوں نے قرآنی علوم، فلسفہ، عرفان، اخلاق، اور تہذیب کے مختلف شعبوں میں انقلابی کام کیئے ہیں۔ ان کے علمی و فکری آثار پورے عالم اسلام میں علمی تحریک کا سبب بنے ہیں۔
علامہ کی علمی و فکری خدمات کی بنیاد چند اہم خصوصیات پر مشتمل تھی جو انہیں ایک منفرد اور معتبر شخصیت بناتی تھیں۔ سب سے پہلے ان کی عقلی استدلال اور منطقی وضاحت تھی، جس کی بدولت وہ پیچیدہ مسائل کو بھی آسان اور قابل فہم انداز میں پیش کر سکتے تھے۔ ان کی تحریروں میں دلیل اور منطق کی قوت نمایاں تھی، جو قاری کو علمی تجزیے اور فہم کی راہ پر گامزن کرتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان کی فلسفیانہ گہرائی بھی قابل ذکر تھی؛ وہ نہ صرف سطحی معلومات تک محدود رہتے بلکہ ہر مسئلے کی بنیادی وجوہات اور اس کے فلسفیانہ پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
فلسفیانہ خدمات
علامہ کی علمی خدمات میں ان کی بنیادی فلسفی کتب ایک مرکزی مقام رکھتی ہیں، جو نہ صرف ان کے فکری معیار کی عکاس ہیں بلکہ آج بھی دینی تعلیم و تحقیق کے لیے معتبر وسائل شمار ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے معروف کتاب "بدایۃ الحکمۃ" ہے، جو فلسفہ کا آغاز اور بنیادی مبادیات بیان کرتی ہے اور طلبہ کو عقلی و منطقی تفکر کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس کے بعد "نھایۃ الحکمۃ" ہے، جو فلسفہ کی اعلیٰ سطحی مباحث اور پیچیدہ مسائل کا تجزیہ پیش کرتی ہے اور قارئین کو فلسفیانہ گہرائی میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ علامہ کی "رسائل فلسفیہ" میں مختلف فلسفیانہ موضوعات پر جامع مقالات شامل ہیں، جو علمی و فکری مکالمے کے لیے اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ نیز، "اصولِ فلسفہ و روشِ رئالیسم"، جس میں علامہ مطہری کے حواشی بھی شامل ہیں، فلسفہ و منطق کے عملی اصولوں اور حقیقت پسندی کے طریقہ کار کی وضاحت کرتی ہے۔ یہ کتب آج بھی حوزہ علمیہ قم، نجف اور دیگر دینی جامعات میں نصاب کی حیثیت رکھتی ہیں اور طلبہ و محققین کے لیے علمی رہنمائی کا لازمی ذریعہ ہیں۔
عرفان و سلوک کا گہرا مطالعہ
علامہ کی علمی و فکری خدمات کا ایک نہایت اہم پہلو ان کا عرفان و سلوک پر گہرا مطالعہ اور عملی بصیرت ہے۔ انہوں نے انسانی زندگی کو محض ظاہری اور مادی جہات تک محدود نہیں دیکھا بلکہ اس کی قلبی، روحانی اور اخلاقی جہات کو بھی علمی اور عملی نظر سے سمجھنے کی کوشش کی۔ علامہ کے نزدیک انسانی کمال صرف علم یا معاشرتی ترقی میں نہیں بلکہ عقل، معرفت اور اخلاقی تربیت کے امتزاج میں پوشیدہ ہے۔
عرفان کے شعبے میں علامہ نے اسے محض ذاتی تجربے یا جذباتی کیفیت کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ اسے عقلی، فلسفیانہ اور قرآنی اصولوں کے تناظر میں سمجھا۔ ان کے نظریے کے مطابق حقیقی عرفان وہ ہے جو عقل و علم کے ساتھ قرآن و سنت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔ انہوں نے انسانی روح کی کائناتی حقیقت، معرفتِ خدا، اور قلبی اصلاح کے مسائل کو فلسفیانہ دلیلوں کے ساتھ بیان کیا تاکہ انسان نہ صرف ذاتی فہم بلکہ عملی زندگی میں بھی ترقی حاصل کر سکے۔
سلوک اور اخلاقی تربیت علامہ کی تعلیمات کا لازمی جزو تھے۔ انہوں نے انسان کے اخلاقی افعال، کردار اور عملی زندگی میں اصلاح کو عرفان کے لازمی پہلو کے طور پر پیش کیا۔ عبادت، ذکر، اور معرفتی مشقیں ان کے نزدیک صرف ظاہری اعمال نہیں بلکہ قلبی پاکیزگی اور روحانی ترقی کے عملی راستے ہیں۔ اسی طرح، عقل و عرفان کا امتزاج ان کی تعلیمات کی خاص پہچان ہے۔ علامہ نے فلسفہ اور عرفان کو متضاد نہیں بلکہ ہم آہنگ سمجھا اور واضح کیا کہ عقل کی روشنی کے بغیر عرفان اندھیرا ہو سکتا ہے اور صرف جذباتی عرفان بھی انسان کو عملی اور اخلاقی ترقی تک نہیں پہنچا سکتا۔
عصر حاضر کے لیے علامہ کی عرفان و سلوک کی تعلیمات انتہائی اہم ہیں۔ وہ جدید دنیا کی مادیت، اخلاقی بحران اور روحانی فقدان کے تناظر میں انسان کو تربیت یافتہ قلب، متوازن فکر اور عملی اخلاق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ علامہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حقیقی انسانی ترقی صرف علمی یا معاشرتی ترقی میں نہیں بلکہ قلبی اور روحانی اصلاح میں بھی موجود ہے۔
اس طرح، علامہ کا عرفان و سلوک پر کام ان کی علمی عظمت کا لازمی پہلو ہے۔ انہوں نے انسان کو عقل، معرفت، اور اخلاقی تربیت کے امتزاج سے کامل انسان بنانے کی کوشش کی۔ ان کی یہ تعلیمات شاگردوں اور محققین کے لیے ایک عملی اور روحانی رہنما ہیں، جو علمی فہم کے ساتھ ساتھ انسانی شخصیت کی مکمل ترقی کی راہ دکھاتی ہیں۔
تہذیبی و فکری مکاتب پر تنقیدی خدمت
علامہ کی علمی و فکری خدمات میں تہذیبی و فکری مکاتب پر تنقید ایک اہم پہلو ہے، جو ان کی گہرائی اور بصیرت کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ صرف فلسفہ یا فقہ تک محدود نہیں رہے بلکہ مختلف تہذیبی، فلسفیانہ اور فکری مکاتب فکر کا بھی تنقیدی جائزہ لیا۔ ان کی تنقید کی بنیاد چند اہم نکات پر تھی:
۱۔ مغربی تہذیب اور فکری مکاتب:
علامہ نے مغربی تہذیب اور اس کے فلسفیانہ مکاتب فکر، جیسے سکولر ازم، مادیت پسندی، اور لبرل ازم پر گہرائی سے تنقید کی۔ وہ اس بات کی نشاندہی کرتے تھے کہ مغربی علوم اور فلسفہ نے مادیت اور عارضی دنیا پر زیادہ زور دیا ہے، جس سے انسانی اخلاقیات، روحانیت اور معنویت کمزور ہوئی ہے۔ علامہ نے ان مکاتب کے مثبت پہلو بھی تسلیم کیے لیکن ان کے اخلاقی اور فکری نقائص پر بھی واضح روشنی ڈالی۔
۲۔ مشرقی و قدیم فلسفیانہ مکاتب:
علامہ نے قدیم مشرقی فلسفہ، جیسے افلاطون، ارسطو اور دیگر فلسفیوں کے نظام فکر پر بھی تجزیہ کیا۔ وہ عقلی اور منطقی بنیادوں پر ان مکاتب کی خوبیوں اور کمزوریوں کو سامنے لاتے اور اس بات کو واضح کرتے کہ بعض نظریات محدود حالات اور تاریخی پس منظر میں کارآمد ہو سکتے ہیں لیکن عصر حاضر کے مسائل کے حل میں ناکافی ہیں۔
۳۔ اسلامی مکاتب فکر کی تنقید:
علامہ نے اسلامی فکری اور فلسفیانہ مکاتب، جیسے معتزلی، اشاعره، اور صوفیانہ نظریات پر بھی تنقیدی نظر ڈالی۔ ان کا مقصد صرف کمزوریوں کی نشاندہی نہیں بلکہ انہیں عصر حاضر کے مسائل سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش تھی۔ وہ روایتی فکر کی قدروں کو برقرار رکھتے ہوئے جدید علوم اور فلسفے کے تناظر میں اصلاح و تجدید پر زور دیتے تھے۔
۴۔ تہذیب و اخلاق کا زاویہ:
علامہ کے نزدیک کسی بھی مکتب فکر کی کامیابی اس کی اخلاقی اور تہذیبی بنیادوں میں مضمر ہے۔ وہ تنقید میں اس بات کو اہمیت دیتے کہ فکری نظام صرف علمی یا فلسفیانہ بحث تک محدود نہ رہے بلکہ انسانی کردار، اخلاقیات، اور معاشرتی بہبود پر بھی اثرانداز ہو۔
۵۔ مقصد و افادیت:
علامہ کی تنقید کا مقصد محض مخالفت نہیں بلکہ ایک رہنمائی اور اصلاحی زاویہ تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلم فکری اور تہذیبی نظام کو علمی بنیادوں پر مضبوط کیا جائے اور مغربی و مشرقی فکر کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی علمی، اخلاقی اور سماجی اصلاح کی جا سکے۔
شاگرد سازی و تربیت کی خدمت
علامہ کی علمی و فکری خدمات کا ایک سب سے نمایاں اور پائیدار پہلو ان کی شاگرد سازی (Intellectual Legacy) و تربیت ہے، جس نے اسلامی علم وفکر کو نہ صرف مستحکم بنیاد یں فراہم کئیں بلکہ عالمی سطح پر متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ نے نہ صرف اپنے وقت کے علمی مسائل پر غور کیا بلکہ ایک ایسی تربیت یافتہ شاگرد بھی پروان چڑھائی جو ان کے فلسفیانہ اصول، عقلی استدلال، اخلاقی بصیرت اور عصر حاضر کے مسائل پر تنقیدی تجزیے کو آگے بڑھانے کی اہلیت رکھتے ہو۔
یہ تربیت یافتہ نسل آج بھی علامہ کی علمی وفکری وراثت کے امین کے طور پرجانے اور پہچانے جاتے ہے اور ان کے علمی اصولوں کو عملی و تحقیقی میدان امور میں کام کئے۔ آپ کے چند نمایاں شاگرددرجہ ذیل ہیں:
شہید مطہری: جنہوں نے فلسفہ، تعلیم اور اسلامی فکر کے موضوعات پر اہم تصانیف تحریر کیں اور علامہ کے اصولوں کو عملی اور علمی میدان میں عام کیا۔
شہید بہشتی: جنہوں نے فقہ، کلام اور اسلامی انقلاب کے نظریاتی پہلوؤں پر کام کیا اور علامہ کے فکری اصولوں کو اجتماعی سطح پر پیش کیا۔
آیت اللہ جوادی آملی: جنہوں نے تفسیر، فلسفہ اور عرفان میں علامہ کے فکری ورثے کو آگے بڑھایا اور عالمی علمی حلقوں میں اسلامی فکر کی روشنی پھیلائی۔
آیت اللہ حسن زادہ آملی: جنہوں نے فلسفہ، کلام اور اخلاق کے شعبوں میں علامہ کے نظریات کو تحقیقی اور تدریسی انداز کے ذریعے پوری دینا میں شہرت یائی۔
آیت اللہ مصباح یزدی: جنہوں نے فقہ، کلام اور تعلیم میں علامہ کی علمی اور تربیتی میراث کو عملی طور پر مضبوط کیا۔
یہ تمام شخصیات علامہ کی فکری بصیرت، فلسفیانہ گہرائی، اور عصر حاضر کے مسائل پر ان کے تجزیے کی روشنی میں تربیت یافتہ ہیں اور اسلامی فکر کو عالمی سطح پر متعارف کروانے میں نمایاں کردار ادا کر رہیں ہیں۔
تفسیر المیزان کا تجزیاتی مطالعہ
علامہ سید محمد حسین طباطبائی کی تصنیف ’’تفسیر المیزان‘‘ نہ صرف ایک روایتی تفسیر کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ ایک جامع علمی اور فکری رسالہ بھی ہے، جو قرآن کے ہر پہلو کو فلسفیانہ، عقلی، اخلاقی اور عملی زاویوں سے پیش کرتی ہے۔ اس کا تجزیاتی مطالعہ ہمیں علامہ کی فکری بصیرت، علمی معیار، اور عصر حاضر کے مسائل پر ان کے جدید تجزیے کا مظاہرہ فراہم کرتا ہے۔
۱۔ فلسفیانہ اور عقلی بنیادیں:
"تفسیر المیزان‘‘ میں ہر آیت کی وضاحت فلسفیانہ اور عقلی دلائل کے ساتھ کی گئی ہے۔ علامہ نے قرآن کو محض تاریخی یا لغوی متن کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ اس کے مضامین کو انسانی فہم اور فکری تجزیے کے تناظر میں بیان کیا۔ آیات کی تشریح میں دلیل، منطق، اور فلسفیانہ تجزیہ استعمال کیا گیا ہے تاکہ قاری نہ صرف لفظی معانی بلکہ باطنی مفاہیم بھی سمجھ سکے۔
۲۔ تاریخی اور اجتماعی سیاق و سباق:
علامہ نے آیات کے نزول کے پس منظر اور تاریخی حالات کو بھی مدنظر رکھا ہے۔ ہر آیت کے معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی سیاق و سباق کی وضاحت سے قاری کو یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ قرآن کے پیغام کا عملی اطلاق کس طرح ممکن ہے۔ اس کے علاوہ، یہ تاریخی روشنی عصر حاضر کے مسائل کے تجزیے کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
۳۔ قرآن و سنت کے ہم آہنگ اصول:
تفسیر المیزان کی خاص بات یہ ہے کہ علامہ نے ہر استدلال اور تشریح کو قرآن و سنت کے ہم آہنگ اصولوں کے تحت پیش کیا ہے۔ اس میں فقہی، کلامی، اور اخلاقی پہلوؤں کی تفصیل موجود ہے، جس سے یہ تفسیر محققین اور طلبہ دونوں کے لیے مستند اور قابلِ اعتماد ذریعہ بنتی ہے۔
۴۔ عصر حاضر کے مسائل پر تجزیہ:
علامہ نے قرآن کی تعلیمات کو صرف ماضی کے تناظر میں نہیں بلکہ موجودہ دور کے مسائل کے مطابق پیش کیا۔ جیسے انسانی حقوق، سماجی انصاف، اخلاقی بحران، سیاسی ظلم، اور انسانی آزادی کے موضوعات۔ اس نقطہ نظر سے ’’تفسیر المیزان‘‘ نہ صرف دینی نصوص کی تشریح کرتی ہے بلکہ عملی اور اخلاقی رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔
۵۔ علمی اور تربیتی اثرات:
"تفسیر المیزان" علامہ کے فکری ورثے کا سب سے نمایاں مظہر ہے۔ اس تفسیر نے شاگردوں اور محققین کو عقلی فکر، فلسفیانہ گہرائی، اور اخلاقی بصیرت کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی۔ یہ تفسیر نہ صرف حوزہ علمیہ قم اور نجف بلکہ دیگر دینی جامعات میں بھی نصاب کا حصہ ہے اور عالمی سطح پر اسلامی فکر کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
تفسیر المیزان علامہ کی علمی، فلسفیانہ، اور اخلاقی بصیرت کا جامع مظہر ہے۔ اس میں قرآن کے ظاہری و باطنی مفاہیم، تاریخی اور اجتماعی سیاق، فلسفیانہ اور عقلی دلائل، اور عصر حاضر کے مسائل پر جدید تجزیہ یکجا ہے۔ اس کا مطالعہ نہ صرف قرآن فہم میں اضافہ کرتا ہے بلکہ انسان کی فکری، اخلاقی اور عملی ترقی کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ یہ تفسیر آج بھی عالمی سطح پر اسلامی فکر کے مطالعے میں ایک لازمی ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔
تفسیر المیزان کا نہجِ تفسیر (Methodology)
تفسیر المیزان، علامہ سید محمد حسین طباطبائی کی مشہور اور جامع تفسیر ہے، جس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا منظم اور علمی روشِ تفسیر ہے۔ اس تفسیر میں قرآن کی ہر آیت کو اس کے اصل مفہوم اور سیاق و سباق کے مطابق بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ علامہ طباطبائی نے قرآن کی تشریح میں صرف نقلی دلائل پر انحصار نہیں کیا بلکہ عقل اور منطق کو بھی مرکزی حیثیت دی، جس سے یہ تفسیر فکری اور عملی دونوں لحاظ سے جامع ہو گئی ہے۔
1۔ قرآن بالقرآن
تفسیر المیزان کا بنیادی اصول یہ ہے کہ قرآن کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے۔ ہر آیت کی وضاحت کے لیے دیگر متعلقہ آیات اور موضوعاتی سیاق و سباق کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اس طریقہ سے قرآن کی داخلی ہم آہنگی اور موضوعاتی تسلسل واضح ہوتا ہے، اور ذاتی رائے یا مفروضوں کی ضرورت نہیں رہتی۔
2۔ عقلی و نقلی دلائل کی ہم آہنگی
علامہ طباطبائی نے تفسیر میں عقلی دلائل اور نقلی دلائل کو یکجا کیا ہے۔ یعنی آیات کی تشریح میں نہ صرف احادیث و روایات کا استعمال کیا گیا بلکہ ان دلائل کی منطقی بنیاد اور فکری مطابقت بھی پرکھی گئی۔ اس اصول سے تفسیر علمی اعتبار سے مضبوط اور عصر حاضر کے مسائل کے لحاظ سے بھی قابلِ فہم ہوتی ہے۔
3۔ موضوعاتی و اجتماعی مطالعہ
تفسیر المیزان میں ہر مسئلے یا حکم کو اس کے وسیع سیاق و سباق میں پیش کیا گیا ہے۔ آیات اور موضوعات کو اجتماعی اور موضوعاتی بنیاد پر مطالعہ کیا جاتا ہے تاکہ قرآن کی تعلیمات فرد اور معاشرہ دونوں کے لیے عملی رہنمائی فراہم کریں۔
4۔ لغوی و نحوی تحقیق
قرآنی الفاظ اور جملوں کی لغوی و نحوی تحقیق تفسیر المیزان کا لازمی جزو ہے۔ علامہ طباطبائی نے الفاظ کی اصل دلالت اور ترکیب کے اعتبار سے تشریح پیش کی، تاکہ آیات کے مفہوم میں کوئی ابہام نہ رہے اور قرآن کی فصاحت و بلاغت قائم رہے۔
5۔ روایات کا نقادانہ جائزہ
احادیث اور روایات کا جائزہ لیتے ہوئے علامہ طباطبائی نے صرف مستند اور قابل اعتماد دلائل کو تفسیر میں شامل کیا۔ سند، متن اور دلالت کی جانچ کے بعد ہی کسی روایت کو آیات کی وضاحت کے لیے استعمال کیا گیا، جس سے تفسیر مستند اور فکری طور پر مضبوط بنی۔
تفسیر المیزان کا اسلوب
تفسیر المیزان کا اسلوب علامہ سید محمد حسین طباطبائی کی علمی بصیرت، فلسفیانہ سوچ اور فکری عمیقیت کا مظہر ہے۔ اس تفسیر کا اسلوب نہ صرف قرآن کے مفہوم کو واضح کرتا ہے بلکہ قارئین کو ایک منطقی اور فکری فریم ورک میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
1۔ علمی وضاحت اور منطقی تسلسل
تفسیر المیزان کا اسلوب جامع اور منطقی ہے۔ ہر آیت اور مسئلے کی تشریح میں پہلا قدم اس کے سیاق و سباق کی وضاحت ہے، اس کے بعد فلسفیانہ اور عقلی استدلال پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہر تشریح ایک منطقی تسلسل میں رکھی جاتی ہے، جو قارئین کے فہم کو آسان اور مربوط بناتا ہے۔
2۔ ترکیبی اور موضوعاتی انداز
علامہ طباطبائی نے آیات اور مسائل کو موضوعاتی اور ترکیبی انداز میں پیش کیا ہے۔ مختلف آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کر کے قرآن کی ہم آہنگی اور جامعیت واضح کی گئی ہے۔ اسلوب میں یہ خصوصیت تفسیر کو سطحی بیان سے آگے لے جا کر ایک منظم اور علمی متن فراہم کرتی ہے۔
3۔ ادبی اور فصیح بیان
تفسیر المیزان کا اسلوب ادبی لحاظ سے بھی ممتاز ہے۔ الفاظ کی انتخاب اور جملوں کی ساخت میں فصاحت و بلاغت کی خاص توجہ دی گئی ہے۔ اس سے نہ صرف قرآن کی روحانی اور معنوی گہرائی اجاگر ہوتی ہے بلکہ قارئین کے لیے مطالعہ بھی خوشگوار اور اثر انگیز بنتا ہے۔
4۔ نقادانہ اور تحقیقی رویہ
اسلوب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر روایت اور دلائل کا نقادانہ جائزہ لیا جاتا ہے۔ سند، متن اور دلالت کی جانچ کے بعد ہی تشریح میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس سے تفسیر علمی، مستند اور تحقیقی اعتبار سے مضبوط بنتی ہے۔









آپ کا تبصرہ