حوزہ نیوز ایجنسی| قرآن و سنت کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے شراب نوشی جیسے جڑ پکڑے ہوئے سماجی مرض کے خلاف تدریجی اور حکیمانہ طریقہ اختیار کیا۔ اسلام نے براہِ راست پابندی لگانے کے بجائے، پہلے عوام کے شعور کو بیدار کیا، ذہنوں کو تیار کیا، اور معاشرے میں ایسا فکری و اخلاقی ماحول پیدا کیا کہ جب شراب کی حرمت کا قطعی حکم نازل ہوا، تو لوگوں نے خود بخود اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ یہ قرآنِ کریم کی طرف سے ایک گہری تربیتی اصلاح تھی، جو اسلامی معاشرت کے عظیم ترین انقلابوں میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔
❖ شراب کی حرمت ہمیشہ سے تمام آسمانی مذاہب میں
تمام الٰہی ادیان میں شراب ہمیشہ حرام رہی ہے، البتہ اسلام میں اس کی حرمت کے اعلان کا طریقہ تدریجی تھا، یعنی ابتدا میں لوگوں کو ذہنی و اخلاقی طور پر تیار کیا گیا، کیونکہ عرب معاشرے میں شراب نوشی عام روایت بن چکی تھی۔
❖ عرب معاشرے کی پس منظر
اسلام سے پہلے عرب معاشرے میں شراب نوشی زندگی، محافل، شاعری، تجارت اور قبیلوی تعلقات کا لازمی حصہ سمجھی جاتی تھی۔ یہ صرف ایک ذاتی عادت نہیں بلکہ سماجی رواج تھا۔ اگر شراب کو ایک ہی بار حرام قرار دیا جاتا، تو اس کے خلاف سخت مزاحمت پیدا ہوتی۔ اسی لیے قرآن نے تربیتی مراحل کے ذریعے لوگوں کے اندر فکری تبدیلی پیدا کی۔
علامہ طباطبائی کے بقول، قرآن کا یہ طریقہ ایک قسم کا “تدریجی ثقافتی انتقال” تھا تاکہ معاشرہ کسی جھٹکے یا نفسیاتی مزاحمت کے بغیر اصلاح کی طرف بڑھ سکے۔
❖ شراب کی حرمت کے چار تدریجی مراحل
۱. اشارے کے ذریعے ذہنی تیاری
پہلے مرحلے میں قرآن نے شراب کو پاک رزق کے مقابلے میں ذکر کیا: «وَ مِنْ ثَمَرَاتِ النَّخِیلِ وَ الْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَکَراً وَ رِزْقاً حَسَناً» (نحل: ۶۷)
اس آیت میں “شراب” کو “اچھی روزی” کے مقابلے میں رکھ کر، لوگوں کے ذہن میں اس کی ناپسندی کا احساس پیدا کیا گیا۔
۲. عملی پابندی کا آغاز
دوسرے مرحلے میں قرآن نے واضح کیا کہ شراب پینے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ: «لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَ أَنْتُمْ سُکَارَى» (نساء: ۴۳)
یہ ایک عملی تربیت تھی، تاکہ مومن نماز کے اوقات میں شراب سے پرہیز کرے، اور رفتہ رفتہ اس عادت کو کم کرے۔
۳. عقلی و فکری وضاحت
تیسرے مرحلے میں قرآن نے لوگوں کے سوال کے جواب میں فرمایا: «فِیهِمَا إِثْمٌ كَبِیرٌ وَ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ إِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا» (بقرہ: ۲۱۹)
یعنی اگرچہ شراب میں کچھ وقتی فائدے ہو سکتے ہیں، مگر اس کا گناہ اور نقصان کہیں زیادہ ہے۔
یہ مرحلہ دراصل ذہنی اصلاح اور فکری بیداری کا تھا، تاکہ لوگ خود اس کے نقصانات کو سمجھ کر ترک کریں۔
۴. قطعی اور آخری حرمت
جب معاشرہ فکری و اخلاقی طور پر آمادہ ہو گیا، تو قرآن نے شراب کو صاف لفظوں میں حرام اور شیطانی عمل قرار دیا: «إِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَيْسِرُ وَ الْأَنْصَابُ وَ الْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ... فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ» (مائدہ: ۹۱)
یہ سب سے مؤثر مرحلہ تھا۔ صحابہ کرامؓ نے یہ آیت سنتے ہی شراب کے برتن توڑ دیے اور خود بخود ترک کر دیا۔
❖ تدریجی حرمت کی حکمتیں
۱. سماجی جڑوں کا خاتمہ شراب نوشی صدیوں پرانی عادت تھی، جسے فوراً ختم کرنا ممکن نہ تھا۔
۲. ایمان کی مضبوطی کے بعد حکم کا نفاذ جب لوگوں کے دل ایمان سے بھر گئے، تب اللہ نے ان پر یہ بھاری ذمہ داری عائد کی۔
۳. معاشی و سماجی جھٹکوں سے بچاؤ شراب تجارت اور معیشت کا ایک بڑا ذریعہ تھی۔ اچانک پابندی سے نظام بگڑ سکتا تھا۔
۴. پہلے ذہنی تبدیلی، پھر عملی ترک اسلام نے پہلے سوچ اور رویہ بدلا، پھر قانون نازل کیا۔
۵. رضاکارانہ ترکِ گناہ اس تدریجی طریقے سے لوگوں نے بغیر کسی جبری حکم کے شراب چھوڑ دی۔
❖ روایات میں شراب کی مذمت
احادیث میں شراب کو "تمام گناہوں کی ماں" قرار دیا گیا ہے۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ اللہ نے شراب سے متعلق دس قسم کے افراد پر لعنت فرمائی ہے: شراب بنانے والا، اس کے لیے انگور اُگانے والا، بیچنے والا، خریدنے والا، پینے والا، پلانے والا، اٹھانے والا، منگوانے والا اور اس کی قیمت سے فائدہ اٹھانے والا۔
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: «مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِیّاً قَطُّ إِلَّا بِتَحْرِیمِ الْخَمْرِ» “اللہ نے کبھی کوئی نبی مبعوث نہیں فرمایا مگر اس کے دین میں شراب حرام تھی۔”
❖ خلاصہ
اسلام نے شراب کی حرمت ایک تدریجی تربیتی حکمت کے ساتھ نافذ کی تاکہ معاشرہ ذہنی، روحانی اور اجتماعی طور پر اس عظیم تبدیلی کے لیے آمادہ ہو۔ یہ عمل نہ صرف ایک شرعی اصلاح تھی بلکہ ایک گہرا سماجی و ثقافتی انقلاب بھی تھا جس نے عرب معاشرے کی بنیادوں کو پاکیزگی، ایمان اور عقل کی روشنی سے بدل دیا۔









آپ کا تبصرہ