پیر 13 اکتوبر 2025 - 15:13
کیوں بعض اوقات ہمیں اپنے دوستوں سے بھی تقیہ کرنا پڑتا ہے؟

حوزہ/ مرحوم آیت اللہ بروجردیؒ نقل کرتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ بعض اوقات تقیہ کے طور پر حتیٰ کہ اپنے شیعوں کے ساتھ بھی جواب دیا کرتے تھے، کیونکہ ان کا ارادہ حقیقت جاننے کا نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کے اعمال فتنے کا سبب بنتے تھے۔ اپنے ہم مذہب لوگوں سے تقیہ کرنا زیادہ مشکل ہے، اور تجربہ سے معلوم ہوا کہ بعض لوگ ہمیشہ فتویٰ کے مطابق عمل نہیں کرتے بلکہ اپنی ذاتی پسند و ذوق کے تابع رہتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہید استاد مرتضیٰ مطہریؒ نے اپنی ایک کتاب میں مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردیؒ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے، جس میں وہ “نادان دوستوں سے تقیہ” کی فلسفیانہ حکمت کو بیان کرتے ہیں۔

استاد مطہریؒ لکھتے ہیں: جب میں حوزہ علمیہ قم میں مقیم تھا اور مرحوم آیت اللہ بروجردیؒ کے پُرفیض درس میں شرکت کا شرف حاصل تھا، ایک دن درسِ فقہ کے دوران ایک حدیث کا ذکر آیا۔

حدیث کا مفہوم یہ تھا کہ: کسی شخص نے امام جعفر صادقؑ سے ایک مسئلہ پوچھا۔ امامؑ نے جواب دیا۔

اس شخص نے عرض کیا: “یہی سوال میں نے آپ کے والد امام محمد باقرؑ سے بھی کیا تھا، لیکن اُنہوں نے اس کا دوسرا جواب دیا تھا۔ اب دونوں میں سے کون سا درست ہے؟”

امام صادقؑ نے فرمایا:“جو میرے والد نے فرمایا، وہ درست ہے۔” پھر امامؑ نے وضاحت کی: “ہمارے شیعہ اُس زمانے میں جب میرے والد کے پاس آتے تھے تو خلوص نیت سے آتے تھے، مقصد یہ ہوتا تھا کہ حقیقت جانیں اور اس پر عمل کریں، اس لیے میرے والد ان سے کھری کھری بات کہتے تھے۔

لیکن جو لوگ آج مجھ سے سوال کرتے ہیں، ان کا ارادہ عمل کا نہیں ہوتا۔ وہ صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میں کیا کہتا ہوں، تاکہ باتوں کو اِدھر اُدھر نقل کر کے فتنہ پیدا کریں۔ اس لیے میں ان کے ساتھ تقیہ سے کام لیتا ہوں۔”

استاد مطہریؒ لکھتے ہیں: چونکہ یہ حدیث اس بات پر مشتمل تھی کہ امامؑ نے “شیعوں سے خود تقیہ” کیا، نہ کہ مخالفین سے، اس لیے یہ مرحوم آیت اللہ بروجردیؒ کے دل کی بات کہنے کا موقع بن گئی۔

انہوں نے فرمایا: “یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، بلکہ اپنے لوگوں سے تقیہ کرنا کبھی زیادہ ضروری اور اہم ہوتا ہے۔

میں خود جب مرجع عام بنا تو ابتدا میں یہ گمان تھا کہ میرا کام استنباط و اجتہاد ہے اور لوگوں کا کام عمل کرنا۔ میں فتویٰ دوں گا اور لوگ عمل کریں گے۔

لیکن کچھ ایسے فتووں کے تجربے کے بعد، جو عوام کے ذوق کے خلاف تھے، سمجھ گیا کہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔”

ماخذ:

استاد مطہری، کتاب: دہ گفتار، ص ۳۰۴–۳۰۵

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha