حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حالیہ دنوں ایک تازہ استفتاء اور اس کا جواب منتشر ہوا ہے جس میں آیت اللہ سیستانی نے سفارش فرمائی ہے کہ ایسے ائمہ جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے جو حکومت سے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں۔ اس جواب کے بعد بعض افراد نے یہ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی کہ چونکہ زیادہ تر ائمہ جماعت اداروں اور کمپنیوں میں نماز پڑھاتے ہیں اور کچھ حکومتی بجٹ سے بھی وابستہ ہوتے ہیں لہٰذا ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے چند نکات پیش کئے جا رہے ہیں:
۱. ’’استفتاء‘‘ اور ’’شُبہہ سازی‘‘ میں فرق
استفتاء کسی مرجع تقلید سے شرعی ذمہ داری واضح کرنے کے لیے کیا جانے والا ایک ذاتی فقہی سوال ہوتا ہے۔ لیکن شبہ ایک سیاسی یا سماجی نتیجہ ہوتا ہے جو مخصوص مقاصد کے تحت اس جواب سے نکالا جاتا ہے۔ یہاں پھیلایا جانے والا شبہ یہ ہے کہ ’’پس جو بھی امام جماعت حکومت سے تنخواہ لیتا ہے اس کے پیچھے نماز باطل ہے‘‘۔ حالانکہ آیت اللہ سیستانی کا جواب محض ایک شرعی رہنمائی ہے نہ کہ کوئی سیاسی اعلان وغیرہ۔
۲. مسئلہ کا فقہی پس منظر
’’امام جماعت کا حاکم کا عامل ہونا‘‘ یا ’’حکومتِ غیر عادل کے بیت المال سے وظیفہ لینا‘‘ جیسے مسائل قدیم فقہی متون میں بارہا بحث ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی نیا یا خلافِ معمول مسئلہ نہیں۔ آیت اللہ سیستانی کا جواب اسی تاریخی فقہی بحث کا تسلسل ہے۔
۳. فتویٰ کی "تجویز کردہ" اور "احتیاطی" نوعیت
آیت اللہ سیستانی کے جواب میں استعمال ہونے والے الفاظ جیسے ’’ننصح المؤمنین‘‘ (مومنین کو تجویز و مشورہ یا نصیحت کرتا ہوں) اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ کوئی قطعی حرمت یا نماز کے بطلان کا حکم نہیں بلکہ ایک احتیاطی ہدایت ہے تاکہ مقلد عبادت میں شک یا تردّد سے بچ سکے۔
۴. علتِ فتویٰ کا صراحت سے بیان ہونا
آیت اللہ العظمیٰ سیستانی نے واضح فرمایا کہ علت یہ ہے کہ ’’مبادا امام جماعت اپنے استقلال کو کھو دے‘‘۔
اس علت کی چند خصوصیات ہیں:
• کلی ہے اور کسی خاص حکومت پر منحصر نہیں۔
• احتمالی ہے، یعنی ممکنہ خطرے کی طرف اشارہ ہے۔
• قابلِ تحقیق ہے، یعنی اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ امام جماعت حکومتی تنخواہ لینے کے باوجود آزاد فکر اور آزاد فیصلہ رکھتا ہے اور حکومتی دباؤ کے سامنے سر نہیں جھکاتا تو اس کے پیچھے نماز میں کوئی اشکال نہیں کیونکہ اس طرح وہ علت ہی منتفی ہو گئی۔
۵. استفتاء کے سیاق و سباق اور مخاطبین (بین الاقوامی حیثیت)
آیت اللہ العظمیٰ سیستانی بین الاقوامی اثر رکھنے والے مراجع میں سے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی عالمی سیاق میں پوچھا گیا ہے۔ بعض میڈیا اسے اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے یہ صرف کسی ایک ملک کے بارے میں ہو۔ جبکہ یہ ایک عمومی فقہی قاعدہ ہے جو دنیا کی ہر اس حکومت پر لاگو ہوتا ہے جو ائمہ جماعت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرے۔ اس اعتبار سے یہ مسئلہ ایران و پاکستان وغیرہ ہی نہیں بلکہ سعودی عرب، بحرین اور دیگر حکومتوں کے بارے میں بھی صادق آتا ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ فتویٰ کی اصل مناسبت زیادہ تر انہی حکومتوں سے جڑی ہوئی ہے۔









آپ کا تبصرہ