حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج کے معاشرے میں رسم و رواج اور سماجی کردار بدلتے رہتے ہیں اور ان پر سوال بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ انہی سوالات میں سے ایک عام سوال، خاص طور پر نوجوانوں کے درمیان، یہ ہے کہ شادی اور رشتہ شروع کرنے کے روایتی طریقے کیا اب بھی وہی رہنے چاہئیں یا ان پر نظرِ ثانی کی جا سکتی ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا روایتی طریقے، جیسے کہ "لڑکے کا لڑکی سے رشتہ مانگنا"، ہی واحد راستہ ہیں یا یہ مرحلہ کسی اور انداز میں بھی طے کیا جا سکتا ہے؟
یہ صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ ثقافتی، دینی اور نفسیاتی پہلو بھی جڑے ہوئے ہیں۔
اس بارے میں حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی نے استفتاء کا جواب دیا ہے، جو دلچسپی رکھنے والوں کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: کیا لڑکیاں لڑکوں سے رشتہ مانگنے جا سکتی ہیں؟
جواب:موجودہ حالات میں ان کا رشتہ مانگنے کے لیے آگے نہ بڑھنا ان کی فطری طبیعت اور حیا کے زیادہ قریب ہے؛ لیکن اگر معاشرے میں یہ رواج بن جائے کہ لڑکیاں لڑکوں سے رشتہ کریں تو شرعاً اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔









آپ کا تبصرہ