ہفتہ 31 مئی 2025 - 14:12
ازدواج کو مشکل بنانے والے عوامل معاشرے کی اخلاقی و دینی بنیادیں کمزور کر رہے ہیں: حجت الاسلام تراشیون

حوزہ/ حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہؑ کے معروف خطیب اور دینی امور کے ماہر حجت الاسلام والمسلمین سید علیرضا تراشیون نے کہا ہے کہ ایک اچھی اور صحت مند زندگی کا تعلق نہ زیادہ جہیز سے ہے اور نہ ہی بھاری بھرکم مہریے سے، بلکہ زندگی کے صحیح اصول اور دینی اخلاقی اقدار ہی خوشحال زندگی کی بنیاد بنتے ہیں، جنہیں بدقسمتی سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہؑ کے معروف خطیب اور دینی امور کے ماہر حجت الاسلام والمسلمین سید علیرضا تراشیون نے کہا ہے کہ ایک اچھی اور صحت مند زندگی کا تعلق نہ زیادہ جہیز سے ہے اور نہ ہی بھاری بھرکم مہریے سے، بلکہ زندگی کے صحیح اصول اور دینی اخلاقی اقدار ہی خوشحال زندگی کی بنیاد بنتے ہیں، جنہیں بدقسمتی سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے حرم مطہر میں منعقدہ ایک معارفی محفل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ذوالحجہ کے ابتدائی ایام اسلامی معاشروں، بالخصوص ہمارے معاشرے میں ازدواج کے صحیح رویے کو فروغ دینے کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔

حجت الاسلام والمسلمین تراشیون نے زور دیا کہ معاشرے میں دینی و اخلاقی سلامتی کے لیے نوجوانوں کی شادی کے مسئلے کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ شادی انسان کی فطری اور جبلّی ضرورت ہے، مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ شادی کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے تاکہ نوجوان آسانی سے ازدواجی زندگی کا آغاز کر سکیں۔

انہوں نے جدید مغربی طرز زندگی (مدرنیٹی) کو شادی کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں خواہشات اور توقعات بہت تیزی سے بڑھ گئی ہیں جبکہ انسان کی استطاعت محدود ہے، وہ سب خواہشات پوری نہیں کر سکتا۔

انہوں نے واضح کیا کہ شادی میں حائل کچھ رکاوٹیں والدین اور خاندانوں کی طرف سے ہیں اور کچھ حکومتی سطح پر ہیں، جنہیں سنجیدگی سے حل کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا:"جب ہم نوجوانوں سے شادی کے موقع پر ایسی توقعات رکھتے ہیں جو ان کی استطاعت سے باہر ہیں، مثلاً گھر، گاڑی اور دیگر سہولیات، تو وہ خود حساب لگا کر دیکھتے ہیں کہ انہیں قرض میں جکڑنا پڑے گا، نتیجتاً وہ شادی سے کترانے لگتے ہیں۔"

خطیب حرم مطہر نے کہا کہ مہنگے اور غیر ضروری جہیز کی خریداری بھی شادی میں تاخیر کا بڑا سبب ہے، جس کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر جاتی ہے اور وہ سنِ ازدواج سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ناجائز اور غیر شرعی تعلقات کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر شادی کو مشکل بنا دیا گیا اور حلال راستے بند کر دیے گئے تو قیامت کے دن والدین سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا، کیونکہ انہوں نے حلال راستہ بند اور حرام راستہ کھلا چھوڑا۔

حجت الاسلام والمسلمین تراشیون نے کہا کہ: "جب لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے تک حلال ذریعے سے پہنچ سکتے ہیں تو ان کے درمیان رکاوٹیں کھڑی کرنا گناہ ہے، اور اس کا حساب بڑوں کو دینا پڑے گا۔"

انہوں نے تاکید کی کہ رسم و رواج اور چشم و ہم چشمی کے نام پر جہیز کی نمائش اور برتری جتانے کا عمل فخر فروشی اور زمانہ جاہلیت کا طریقہ ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔

مہنگے مہریے کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: "مہریہ جتنا زیادہ ہو، اتنا ہی شادی میں رکاوٹ بنتا ہے، اور بالآخر دلوں میں کینہ اور اختلافات کو جنم دیتا ہے۔"

حجت الاسلام والمسلمین تراشیون نے کہا کہ ہم نے نوجوانوں کی شادی کے راستے میں کئی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں، اور پھر یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ آسانی سے شادی کر لیں، جو کہ خود ایک تضاد ہے۔

انہوں نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات والدین اس بنیاد پر زیادہ مہریہ طلب کرتے ہیں کہ انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی بیٹی شادی کے فوراً بعد واپس آ جائے گی، لہٰذا وہ مالی تحفظ چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں، بالخصوص لڑکوں، کی مالی تربیت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر توجہ دے تاکہ وہ خود کفیل ہو کر شادی کی ذمہ داری نبھا سکیں۔

انہوں نے کہا: "بدقسمتی سے آج بعض نوجوان ایسے ہیں کہ ڈگری رکھنے کے باوجود موبائل کا بیلنس والدین سے مانگتے ہیں، جب کہ ماضی میں نوجوان ایک ہنر یا پیشہ ضرور رکھتے تھے۔"

آخر میں انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ میڈیا، بالخصوص صدا و سیما (ایرانی قومی ٹی وی)، نے حالیہ برسوں میں نوجوانوں کو خود کفیل بنانے کی جانب اچھے اقدامات کیے ہیں، جنہیں مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha