حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرحوم آیت اللہ مصباح یزدیؒ نے اپنے ایک درسِ اخلاق میں اس اہم موضوع کی طرف توجہ دلائی کہ: "ہم نے اپنے اعمال میں سے کون سا کام صرف خدا کے لیے انجام دیا؟" یہ نکات آپ اہلِ علم و فکر کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔
«وَاعلَمَوا اِنَّهُ لَیسَ لاَنفُسِکُم ثَمَنٌ دُون الجَنَّةُ».
«جان لو! ہمہاری جان کی قیمت جنت کے سوا کچھ نہیں»
ہماری یہ زندگی، جو خدا نے ہمارے اختیار میں دی ہے، اسے کبھی کبھی ہم معمولی سی چیز کے بدلے بیچ دیتے ہیں۔ کاش کچھ اعمال تو کم از کم ایک معمولی دانے کے برابر ہی ہوتے،لیکن افسوس کہ بعض اوقات ہم اپنی عمر، اپنا علم اور اپنی محنت ایسے کاموں پر خرچ کر دیتے ہیں جو صرف نقصان ہی نہیں، بلکہ زہرِ قاتل ثابت ہوتے ہیں۔
اگر ہم اپنا علم اور اپنی زندگی ایسے مقاصد کے لیے استعمال کریں جن سے خدا راضی نہیں؛ اگر اپنی قابلیت کو ایسے شخص یا کام کی حمایت میں لگا دیں جو خدا کے نزدیک ناپسند ہے، تو یہ نہ صرف خرمہرہ کے برابر سودا ہے بلکہ ایسا ہے جیسے ہم نے اپنا سب کچھ زہریلے دام کے عوض بیچ دیا ہو۔
درحقیقت ہم خود ہی اپنے آپ کو جلا رہے ہوتے ہیں، جبکہ اسی عمر اور علم کو ایسے کام میں لگایا جا سکتا تھا جس کا ثواب اتنا بے انتہا ہے کہ کوئی اس کی مقدار شمار ہی نہیں کر سکتا۔ بھلا لامحدود کو محدود پیمانے سے ناپا جا سکتا ہے؟
آؤ ذرا اپنے دل سے سچ بولیں۔ آج صبح اٹھنے سے لے کر اس لمحے تک، ہم نے کیا کیا؟
فرض کرو ہم نے دس بڑے کام کیے، اور ہر لمحہ اس کا حساب ہے۔ اب ایمانداری سے اپنے آپ سے پوچھیں: ان میں سے واقعی کون سا کام صرف خدا کے لیے تھا؟
کون سا ایسا عمل تھا جو ہم صرف اس لیے کرتے کہ خدا نے حکم دیا ہے؟ وہ کام جسے اگر خدا نہ کہتا تو ہم کبھی نہ کرتے، اور جب خدا نے کہا تو ہم نے اس کی خاطر تکلیف، نقصان اور سختی بھی برداشت کی؟
ہم اپنی زندگی کے کتنے لمحات ایسے کاموں میں لگا سکتے ہیں جن میں خدا کی رضا ہوتی، ایسے کام جن کی قیمت لامتناہی ہے؟
یہ صرف ایک زبانی فیصلہ نہیں کہ بس کہہ دیا جائے کہ: ہم نے نیت کرلی ہے یا ہماری نیت خود بخود ہوجائے گی۔ نیت اس طرح نہیں ہوتی ہے۔ اس کے لیے معرفت چاہیے، فکر چاہیے۔ جب فکر سے معرفت ہوگی، جب کہیں جاکر دل میں خدا سے محبت ہوتی ہے، اور پھر وہ چیزیں جو اس محبت کے خلاف ہوتی ہیں، انسان دھیرے دھیرے انہیں اپنے اندر سے نکالتا رہتا ہے۔ تب جا کر عمل خالص ہوتا ہے اور اس کی اہمیت ہوتی ہے۔
اگر ہم اپنی پوری زندگی ایک انسان کی ہدایت پر لگا دیں، تو اس کی قیمت دنیا کے تمام مال و دولت سے زیادہ ہے۔ یہ باتیں مبالغہ نہیں، بلکہ روزِ محشر کی حقیقی حقیقتیں ہیں۔
کبھی انسان سمجھتا ہے کہ اس نے اسلام اور دین کے لیے بہت خدمت کی ہے اور اب اسے ڈھیر سارا ثواب ملے گا، لیکن جب حساب شروع ہوتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ جو کچھ کیا وہ فلاں جماعت، فلاں گروہ یا دنیاوی فائدے کے لیے تھا۔ اس کا بدلہ دنیا میں مل گیا "پیٹ کے لیے کیا تھا" اب آخرت کے اجر میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
تو اصل سوال یہی ہے:
ہم نے کون سا عمل صرف خدا کے لیے کیا؟
اگر عمل واقعی خدا کے لیے ہو، تو پھر زیادہ آمدنی کی ہوس، شہرت کی خواہش، عزت و احترام کی محبت، ان میں سے کوئی چیز ہمہیں ہلا نہیں سکتی۔ کیونکہ ہمہاری نیت خالص ہے و ہمہاری منزل صرف رضائے الٰہی ہے۔









آپ کا تبصرہ