حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندہ سے خصوصی گفتگو کے دوران شیعہ علماء کونسل پاکستان خیبر پختونخواہ کے سابقہ آرگنائزر، صوبائی رہنما ملی یکجہتی کونسل حجت الاسلام والمسلمین سید زاہد حسنین بخاری نے شہید سید حسن نصراللہ کی شخصیت، ان کے مشن اور مزاحمتی محور کی موجودہ صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ جسے ذیل میں حوزہ نیوز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ: براہ کرم سب سے پہلے اپنا مختصر تعارف کرائیں۔
حجت الاسلام والمسلمین سید زاہد حسنین بخاری:
میرا نام سید زاہد حسنین بخاری ہے۔ میں سابقہ آرگنائزر شیعہ علماء کونسل پاکستان، خیبر پختونخوا ہوں۔ اس وقت صوبائی رہنما ملی یکجہتی کونسل کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہوں۔ تعلیمی میدان میں بطور پرنسپل اور ریجنل ڈائریکٹر/ریجنل کوآرڈینیٹر ہزارہ ڈویژن، اسوہ ایجوکیشن سمیت مختلف ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف دینی، ثقافتی اور تبلیغی فرائض کی انجام دہی کا بھی شرف حاصل ہے۔
حوزہ: شہید سید حسن نصراللہ کی شخصیت کی جانب مختصر اشارہ کرتے ہوئے ان کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کریں۔
حجت الاسلام والمسلمین سید زاہد حسنین بخاری:
شہید سید حسن نصراللہ رحمۃ اللہ علیہ ایک ہمہ گیر اور پراثر شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی تقاریر ہر فرد کو مخاطب کرتی تھیں اور دقیق علمی و سیاسی معلومات عوام تک پہنچاتی تھیں۔ ان کی سحر انگیز گفتگو نے عرب دنیا، برصغیر اور یورپ تک ان کے چاہنے والوں کا دائرہ وسیع کیا۔ اگرچہ عرب حکومتیں ان سے نالاں تھیں مگر عوامی سطح پر وہ بے حد مقبول تھے۔ سید حسن نصراللہ کو لوگ بہت زیادہ پسند کرتے تھے اور جس وقت تقریر کے لئے ان کا پیغام آتا تھا کہ فلاں ٹائم پر ان کی تقریر نشر کی جائے گی تو پوری دنیا سے سب سے زیادہ سننے والے سامعین سید حسن نصراللہ کے ہوتے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ واقعا ایسی شخصیت تھے کہ جو سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے اور ان ہی کا کمال تھا کہ پوری دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور یہ ان کی شخصیت کا ہی خاصا تھا کہ انہوں نے مختلف قوموں اور مذاہب کے افراد کو اسرائیل کے خلاف ایک محاذ پر متحد کر دیا۔

حوزہ: آپ کی نظر میں شہید مقاومت کے وژن کو کس طرح آگے بڑھایا جا سکتا ہے؟
حجت الاسلام والمسلمین سید زاہد حسنین بخاری:
شہید کا وژن واضح تھا اور وہ تھا "مظلوموں کی حمایت اور ظالم قوتوں کے خلاف ڈٹ جانا"۔ اس وژن کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اتحاد و وحدت کی فضا قائم کریں، عوامی شعور پیدا کریں، اور مظلوم اقوام کے حق میں آواز بلند کریں۔ جب ہم لوگوں کو ظلم کے خلاف بیدار کر کے ان کے شعور کو بلند کریں گے، تبھی ہم شہید کے مشن کے امین کہلائیں گے۔
حوزہ: آیا شہید نصراللہ کی شہادت کے بعد "مزاحمتی محور" کی حکمتِ عملی میں کوئی کمی یا تبدیلی آئی ہے یا ان کی شہادت نے اسے مزید مضبوط کیا ہے؟
حجت الاسلام والمسلمین سید زاہد حسنین بخاری:
شہید کی شہادت کے بعد مزاحمتی محور کمزور نہیں ہوا بلکہ اور مضبوط ہوا ہے۔ شہید کے خون نے عوام کے دلوں میں نیا ولولہ پیدا کیا ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ چہرے بدلتے ہیں، مگر مزاحمتی نظام کی اساس وہی ہے۔ آج لبنان میں نہ صرف شیعہ بلکہ تمام مسالک اور عوام حزب اللہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمتی محور اب ایک عالمی عوامی تحریک بن چکا ہے۔

حوزہ: شہید کی پہلی برسی پر لاکھوں افراد کے اجتماع کو دیکھتے ہوئے آپ کی نظر میں یہ عوامی حمایت تحریک کے مستقبل کے لیے کس طرح مشعل راہ ہے؟
حجت الاسلام والمسلمین سید زاہد حسنین بخاری:
شہید کی برسی پر لاکھوں افراد کا اجتماع اس بات کا مظہر ہے کہ عوام نے شہید کے پیغام کو دل سے قبول کیا ہے۔ یہ محبت ان کے مشن کی مرہونِ منت ہے۔ وہ مشن جس کا مقصد اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد ہے۔ ان کی برسی کے اجتماع نے ثابت کیا کہ شہید کا پیغام عوامی ضمیر میں زندہ ہے اور مستقبل میں بھی تحریک کو توانائی فراہم کرتا رہے گا۔
حوزہ: غزہ کا مسئلہ؛ شہید نصراللہ اپنی آخری سانس تک غزہ کی حمایت پر زور دیتے رہے۔ موجودہ حالات میں ہمیں اس سلسلے میں اپنی جدوجہد کو کس شکل میں جاری رکھنا چاہیے؟
حجت الاسلام والمسلمین سید زاہد حسنین بخاری:
غزہ کی حمایت شہید حسن نصراللہ کے مشن کا بنیادی حصہ تھی۔ وہ ہمیشہ فلسطینی عوام کی مظلومیت پر آواز اٹھاتے رہے۔ جس وقت حزب اللہ نے اپنی حکمت عملی سے اسرائیل سے اپنے علاقے خالی کرائے تو اس سے حماس کے اندر بھی ایک جرأت اور ولولہ پیدا ہوا اور انہوں نے پھر اس سےدرس لیتے ہوئے "طوفان الاقصی" جیسے آپریشن کئے۔ سید حسن نصراللہ سب سے زیادہ غزہ پر بولتے تھے۔ وہ دنیا کو بتاتے کہ غزہ پر ظلم ہو رہا ہے غزہ کے لوگ مسلمان ہیں، غیور مسلمان ہیں اور ہم اس یہودی لابی کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ آئیں اور غزہ پر حملہ کریں۔اور واقعا یہ پیغام دنیا میں اتنا زیادہ عام ہوا کہ آپ اس وقت دیکھ لیں کہ سب سے زیادہ یورپ اور امریکہ کی عوام غزہ کے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ گو کہ ان کے حکمران دوسری طرف ہیں۔ اسی طرح عرب حکمران دوسری طرف ہیں لیکن اس میں بنیادی کردار شہید حسن نصراللہ رحمۃ اللہ کا تھا کہ جنہوں نے اس پیغام کو تقویت بخشی اور اسے جگہ جگہ تک پہنچایا کہ غزہ کے لوگ مظلوم ہیں، قدس کو ہم نے رہا کرانا ہے، یہ ہمارا بیت المقدس مسلمانوں کا وہ پہلا قبلہ ہے۔ ہم نے اس کو بھی آزاد کروانا ہے، ہم نے غزہ کے مظلومین کی حمایت کرنی ہے اور کبھی بھی یہودی لابی کو قبول نہیں کرنا ہے۔

آج ہمیں اسی جذبے کے ساتھ غزہ کے حق میں اپنی حمایت جاری رکھنی چاہیے۔ چاہے وہ عوامی بیداری کی صورت میں ہو، مالی و انسانی امداد کی شکل میں ہو یا سیاسی و سفارتی جدوجہد کے ذریعہ۔ ہمیں شہید کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا ہے کہ بیت المقدس اور غزہ کی آزادی امتِ مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یہی شہید کے خون سے وفاداری اور ان کے مشن کی تکمیل ہے۔
صوبائی رہنما ملی یکجہتی کونسل نے اپنی گفتگو کے اختتام پر کہا کہ ہمیں اس ظالمانہ عالمی نظام کے مقابلے میں بیداری پیدا کرنی ہوگی، مظلومین کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا اور شہید نصراللہ کے پیغام کو عملی صورت دینی ہوگی۔ یہی ان کی حقیقی یادگار ہے۔









آپ کا تبصرہ