تحریر: مولانا عقیل رضا ترابی
حوزہ نیوز ایجنسی| "إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ" جب اللہ کی مدد اور فتح آتی ہے، تو ہر دل مومن کے لیے خوشخبری اور حوصلے کا لمحہ ہوتا ہے۔ یہی آیت آج کے دور کے ایک درخشندہ ستارے، شہید سید حسن نصراللہ کی شخصیت کے ساتھ بہت موزوں ہے، جنہوں نے اپنی پوری حیات میں استقامت، بصیرت اور ایثار کا پیکر بن کر امت کے لیے روشنی کا مینارہ قائم کیا۔
تاریخِ انسانی میں وہی شخصیات جاویداں رہتی ہیں جو اپنی ذات کو قربان کر کے قوم و امت کو زندگی بخشتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ انہی میں سے ایک درخشندہ چراغ ہیں، جن کی شہادت اس حقیقت کی گواہ ہے کہ حسینؑی فکر آج بھی زندہ ہے اور ہر باطل طاقت کو چیلنج کرنے کی قوت رکھتی ہے۔
قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: "وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْیَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ" (آل عمران: 169)
یہ آیت شہید نصراللہ کی زندگی و شہادت کا عکاس ہے۔ وہ اپنی قوم کے لیے زندگی بھر سانسوں میں زندہ رہے اور شہادت کے بعد بھی مقاومت و حریت کے جذبے میں زندہ ہیں۔
آغازِ حیات اور علمی پس منظر
۳۱ اگست ۱۹۶۰ء کو بیروت (لبنان) کے ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہونے والے سید حسن نصراللہ بچپن ہی سے دینی تعلیم و اسلامی فکر میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے نجفِ اشرف اور پھر قمِ مقدسہ کے حوزۂ علمیہ میں تحصیل علم کی۔ مراجعِ عظام سے فیض یاب ہو کر قیادت و استقامت کے اصول سیکھے اور عملی زندگی میں انہیں اپنا شعار بنایا۔
قیادت و مزاحمت
نصراللہ صرف عالم نہیں بلکہ ایک باکمال قائد تھے۔ ان کی قیادت عوام کے دلوں پر قائم تھی۔ وہ لبنان تک محدود نہ رہے بلکہ پوری امت کے لیے صدائے مزاحمت بنے۔ ان کے مشہور کلمات ہیں:
"ہماری راہ حسینؑ کی راہ ہے، ہماری تحریک کربلا کی تحریک ہے۔"
مزاحمت کو انہوں نے محض سیاسی جدوجہد نہیں بلکہ ایمانی اور حسینی فریضہ بنا کر پیش کیا۔
عزم و استقامت
ان کا سب سے نمایاں وصف عزم تھا۔ عالمی طاقتیں، سیاسی دباؤ اور دشمن کی فوجی یلغار بھی ان کے حوصلے کو متزلزل نہ کرسکی۔ وہ فرمایا کرتے تھے:
"اگر ہمیں زمین کے نیچے دفن کر دیا جائے تب بھی ہم مٹی سے اُٹھ کر مزاحمت کریں گے۔"
یہی عزم ان کے ماننے والوں کے لیے مشعل راہ اور دشمنوں کے لیے لرزہ خیز تھا۔
ایثار و قربانی
شہید کی حیات کا دوسرا نمایاں پہلو ایثار تھا۔ انہوں نے اپنی راحت، اہل و عیال اور اپنی سلامتی تک کو قوم پر قربان کر دیا۔ اہلبیتؑ کی سیرت سے متاثر ہو کر کہا کرتے:
"اگر ہم نے قربانی نہ دی تو آنے والی نسلیں غلامی کے اندھیروں میں جئیں گی۔"
ان کی زندگی بتاتی ہے کہ حقیقی رہنما وہی ہے جو قوم کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھے۔
شہادت: ابدی حیات کا آغاز
۲۷ ستمبر ۲۰۲۵ء کو ایک اسرائیلی فضائی حملے میں سید حسن نصراللہ شہید ہوئے۔ یہ لمحہ ان کے لیے اختتام نہیں بلکہ ایک نئی زندگی کا آغاز تھا۔ ان کے خون نے امت کی رگوں میں نیا ولولہ اور توانائی دوڑا دی۔
اہلِ بیتؑ کی احادیث کی روشنی میں
امام حسینؑ فرماتے ہیں:"انی لا أری الموت إلا سعادة والحیاة مع الظالمین إلا برما"
یہی فلسفہ شہید نصراللہ کی پوری حیات و شہادت میں مجسم نظر آتا ہے۔ انہوں نے ظلم کے ساتھ جینے کی بجائے عزت کے ساتھ مرنے کو ترجیح دی۔
اگر سید حسن نصراللہ کی زندگی کو ایک جملے میں سمیٹا جائے تو وہ واقعی "عزم و ایثار کا استعارہ" تھے۔ ان کی ذات امت کے لیے مینارۂ نور ہے اور ان کی شہادت آج بھی ہمیں یہی پیغام دیتی ہے کہ ظلم کے خلاف قیام ہی عزت کی راہ ہے اور یہی کربلا کی ابدی صدا ہے۔









آپ کا تبصرہ