حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ سید محمد غروی بحرینی نژاد عالم دین ہیں جنہوں نے نجف اشرف میں علوم دینیہ حاصل کیے اور آیت اللہ سید محمدباقر صدر کی براہِ راست تربیت میں رہے۔ بعدازاں استاد کے مشورے پر لبنان گئے اور امام موسیٰ صدر کے ساتھ دینی، سماجی اور انقلابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ ان کے بقول، امام موسیٰ صدر کا عوامی کردار، بے لوث خدمات اور محروم طبقات کے لیے انقلابی اقدامات تاریخ کا سنہری باب ہیں، اور ان کی پُراسرار گمشدگی لبنان کے اجتماعی شعور پر گہرا زخم ہے۔
غروی بتاتے ہیں کہ انہی دنوں ایک نمایاں واقعہ ان کی زندگی میں پیش آیا۔ صور کے قریب بازوریہ گاؤں کا ایک باکمال لڑکا ان کی توجہ کا مرکز بنا۔ سید حسن نصراللہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن بچپن ہی سے دینی سوالات کرتے، نمازِ جماعت میں شریک ہوتے اور علماء سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ آیت اللہ غروی کے بقول: "میں نے ان کے چہرے پر غیر معمولی جاذبہ اور سنجیدگی دیکھی اور دل میں یقین پیدا ہوا کہ یہ لڑکا بڑی منزل کے لیے بنایا گیا ہے۔"
انہوں نے سید حسن کو نجف میں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ اگرچہ مالی مشکلات آڑے آ رہی تھیں، لیکن نصراللہ نے آمادگی ظاہر کی۔ آیت اللہ غروی نے ان کے اخراجات فراہم کیے اور آیت اللہ باقر صدر کے نام ایک خط لکھا۔ یہی خط سید حسن نصراللہ کی علمی و انقلابی زندگی کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ آیت اللہ صدر نے سید عباس موسوی کو ان کا سرپرست مقرر کیا، جو بعد میں حزب اللہ کے پہلے شہید جنرل سکریٹری بنے۔ اس طرح نصراللہ کی دینی و فکری تربیت ایک مضبوط بنیاد پر استوار ہوئی۔
آیت اللہ غروی کے مطابق، نصراللہ ہمیشہ عاجزی کے ساتھ پیش آتے اور اپنے محسنین کو یاد رکھتے تھے۔ ایک ملاقات میں انہوں نے کہا: "تمہارا مجھ پر حق ہے۔" یہ جملہ گویا ان کی آخری ملاقات کی یادگار بن گیا۔
سید محمد غروی کا کہنا ہے کہ سید حسن نصراللہ کی نمایاں خصوصیات میں غیر معمولی بصیرت، سادہ زندگی، مزاحمتی فکر، عوامی قربت اور ولایتِ فقیہ سے کامل وابستگی شامل تھیں۔ یہی اوصاف انہیں عوام کے دلوں کا محبوب قائد اور صہیونی دشمن کے لیے ڈراؤنا خواب بنا گئے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ نصراللہ کی شہادت لبنان اور امتِ اسلامیہ کے لیے بڑا سانحہ ہے، لیکن ان کی فکر و عمل آج بھی زندہ ہیں۔ شہید نصراللہ نے اپنی حیات میں یہ ثابت کیا کہ مقاومت محض ایک سیاسی تحریک نہیں بلکہ ایک دینی رسالت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی یاد اور ان کا راستہ آج بھی محورِ مقاومت کے لیے طاقت اور حوصلے کا سرچشمہ ہے۔









آپ کا تبصرہ