جمعرات 11 ستمبر 2025 - 05:34
۱۷ ربیع الاوّل؛ ربیع الانوار، نُورٌ عَلَىٰ نُورٍ کی عملی تفسیر کا دن

حوزہ/ ازل سے ابد تک پھیلی ہوئی اس کائنات میں گردشِ لیل و نہار نے ان گنت لمحوں کو جنم دیا ہے، لیکن تاریخ کے اوراق پر چند لمحے ایسے بھی نقش ہوئے جو زمانے کی پیشانی پر ہمیشہ کے لیے چمکتے رہیں گے۔ یہ وہ لمحے ہیں جو تاریخ کا دھارا موڑ دیتے ہیں اور انسانیت کی تقدیر کو ایک نئی راہ عطا کرتے ہیں۔ ربیع الاول کا مہینہ انہی لازوال لمحوں کی یاد کا نام ہے۔

تحریر: عباس رضا

حوزہ نیوز ایجنسی| ازل سے ابد تک پھیلی ہوئی اس کائنات میں گردشِ لیل و نہار نے ان گنت لمحوں کو جنم دیا ہے، لیکن تاریخ کے اوراق پر چند لمحے ایسے بھی نقش ہوئے جو زمانے کی پیشانی پر ہمیشہ کے لیے چمکتے رہیں گے۔ یہ وہ لمحے ہیں جو تاریخ کا دھارا موڑ دیتے ہیں اور انسانیت کی تقدیر کو ایک نئی راہ عطا کرتے ہیں۔ ربیع الاول کا مہینہ انہی لازوال لمحوں کی یاد کا نام ہے۔ یہ مہینہ اُس طویل اور تاریک خزاں کے بعد اُس روحانی بہار کی صبح کا پیغام ہے، جب انسانیت اپنے اخلاقی اور روحانی زوال کی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ یہ ایک ایسی بہار ہے جس کی خوشبو سے آج بھی کائنات کا ذرہ ذرہ معطر ہے۔ اس مہینے کا ہر دن برکتوں اور رحمتوں سے معمور ہے، لیکن اس کی سترہویں تاریخ ایک ایسا منفرد اور بے مثال دن ہے جو اپنے اندر دو آفتابوں کی روشنی اور کونین کی سعادت سموئے ہوئے ہے۔ یہ وہی مبارک دن ہے جب آسمانوں پر فرمانِ خداوندی ”نُورٌ عَلَىٰ نُورٍ“ (نور پر نور) کی عملی تفسیر انسانی پیکر میں دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوئی۔ یہ دن محض ایک جشن کا نام نہیں، بلکہ انسانیت کی تاریخ میں ایک عظیم انقلاب کا نقطۂ آغاز ہے۔

پہلا نور: طلوعِ آفتابِ رسالت

سترہویں ربیع الاول کی اس مقدس صبح سے قبل، دنیا جہالت کی ایک تاریک رات میں ڈوبی ہوئی تھی۔ یہ محض روشنی کی عدم موجودگی نہ تھی، بلکہ یہ علم، اخلاق، انصاف اور انسانیت کی تاریکی تھی۔ سرزمینِ عرب، جسے پیغمبرِ آخر الزماں کی بعثت کے لیے منتخب کیا گیا، اُس وقت جہالت کے اندھیروں میں غرق تھی۔ قبائلی عصبیت، خونریز جنگیں، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا، غلاموں سے غیر انسانی سلوک اور انسانی اقدار کی پامالی روزمرہ کا معمول تھا۔ شرک کی وبا اس قدر عام تھی کہ ایک ہی بیت اللہ میں 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ یہ صرف عرب کا حال نہ تھا، بلکہ اُس دور کی عظیم سلطنتیں، روم و فارس، بھی اخلاقی اور سماجی انحطاط کا شکار تھیں۔ ایک طرف قیصر اور دوسری طرف کسریٰ کی بادشاہت میں انسان کو انسان کا غلام بنا دیا گیا تھا اور انصاف صرف طاقتوروں کے لیے مخصوص تھا۔ روحانیت کی جگہ بے معنی رسوم اور توہمات نے لے لی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے انسانیت اپنے خالق سے رشتہ توڑ کر اجتماعی خودکشی کے دہانے پر کھڑی ہے۔

ایسے مایوس کن ماحول میں، مکہ کے معزز ترین گھرانے میں، سترہویں ربیع الاول کی صبح، ایک ایسی ہستی نے جنم لیا جسے آگے چل کر ”رحمۃ للعالمین“ بننا تھا۔ یہ ولادتِ باسعادت تھی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی۔ آپ کی آمد محض ایک بچے کی پیدائش نہ تھی، بلکہ ایک نئے دور کا، ایک نئی تہذیب کا اور ایک نئی تاریخ کا آغاز تھا۔ یہ وہ پہلا نور تھا جس نے جہالت کے اندھیروں کو ہمیشہ کے لیے چاک کر دیا۔ آپ کی ولادت کے ساتھ ہی کسریٰ کے محل کے کنگرے لرز کر گر پڑے اور فارس کا ہزار سالہ آتشکدہ بجھ گیا، گویا فطرت خود گواہی دے رہی تھی کہ اب باطل کی حکمرانی کا خاتمہ اور حق کے نور کی بالادستی کا وقت آن پہنچا ہے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری حیاتِ طیبہ، جو ”خُلقِ عظیم“ کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے، اسی نور کو پھیلانے میں صرف کی۔ آپ نے یہ پیغام دیا کہ تمام انسان برابر ہیں اور کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، سوائے تقویٰ کے۔ آپ نے توحید کا وہ انقلابی تصور پیش کیا جس نے انسان کو ہزاروں جھوٹے خداؤں کی غلامی سے نکال کر خدائے واحد کی بندگی میں داخل کیا اور اسے حقیقی معنوں میں حریت عطا کی۔ آپ نے علم کے حصول کو ہر مرد اور عورت پر فرض قرار دیا اور انصاف کا ایک ایسا نظام قائم کیا جہاں ایک عام شہری بھی وقت کے حاکم کو عدالت میں طلب کر سکتا تھا۔ آپ کی رحمت صرف انسانوں تک محدود نہ تھی، بلکہ حیوانات، نباتات اور تمام عالمین کے لیے تھی۔ فتحِ مکہ کے موقع پر اپنے بدترین دشمنوں کو معاف فرما کر آپ نے دنیا کو سکھایا کہ حقیقی طاقت انتقام میں نہیں، بلکہ عفو و درگزر میں ہے۔ آپ کی حیاتِ مبارکہ قرآنِ مجید کی عملی تفسیر تھی۔ یہی وہ پہلا اور بنیادی نور تھا جس نے انسانیت کو تباہی کے گڑھے سے نکال کر ترقی اور کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کیا۔

دوسرا نور: ظہورِ حکمتِ صادق

وقت کا دریا بہتا رہا اور نبوت کا یہ آفتاب اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ چمکنے کے بعد بظاہر اس دنیا سے پردہ فرما گیا، لیکن یہ نور ختم نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نور کو امامت کی شکل میں جاری رکھنے کا اہتمام فرمایا تھا۔ نبوت کے گلشن کو سرسبز و شاداب رکھنے کے لیے امامت کی نہر کا جاری رہنا ناگزیر تھا۔ اسی سلسلے کی چھٹی کڑی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تھے۔ قدرت کی منصوبہ بندی دیکھیے کہ آپ کی ولادت بھی اسی سترہویں ربیع الاول کے مبارک دن پر ہوئی، گویا فطرت یہ اعلان کر رہی تھی کہ یہ دوسرا نور، پہلے نور کا ہی تسلسل اور اس کی تکمیل ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور ایک انتہائی پرآشوب دور تھا۔ ایک طرف بنو امیہ کی سلطنت اپنے آخری سانس لے رہی تھی تو دوسری طرف بنو عباس کی حکومت کا آغاز ہو رہا تھا۔ اس سیاسی انتشار کے سبب ایک فکری اور علمی طوفان برپا تھا۔ یونانی فلسفے کا ترجمہ ہو رہا تھا، نت نئے فکری اور فقہی مکاتب جنم لے رہے تھے اور اسلام کے بنیادی عقائد پر نئے نئے سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔ ملحد اور دہریے کھلے عام اسلامی عقائد کو چیلنج کر رہے تھے۔ ایسے فکری بحران کے دور میں امت کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت تھی جو نہ صرف اسلام کی حقیقی تعلیمات کو محفوظ رکھے، بلکہ دلیل اور منطق سے ہر اعتراض کا جواب بھی دے۔

ایسے نازک دور میں، امام جعفر صادق علیہ السلام کی ذات علم و حکمت کا ایک روشن چراغ بن کر ابھری۔ یہ وہ دوسرا نور تھا جو چراغِ نبوت سے ہی روشن ہوا تھا۔ مدینہ منورہ میں آپ کا گھر اور مسجدِ نبوی میں آپ کی درسگاہ اُس وقت کی سب سے بڑی جامعہ کی حیثیت رکھتی تھی، جہاں سے ہزاروں تشنگانِ علم نے اپنی پیاس بجھائی۔ آپ کی علمی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے شاگردوں میں صرف شیعہ علماء ہی نہیں، بلکہ اہلِ سنت کے عظیم امام، جیسے امام ابو حنیفہ اور امام مالک، بھی شامل تھے۔ مشہور سائنسدان جابر بن حیان بھی آپ ہی کے شاگردوں میں سے تھے۔

امام صادق علیہ السلام نے اسلامی علوم کو ایک نئی ترتیب و تنظیم عطا کی۔ آپ نے فقہ، حدیث، تفسیر اور علمِ کلام کے وہ اصول وضع کیے جو آج تک امت کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ آپ کی بیان کردہ فقہی تعلیمات کی بنا پر ہی شیعہ مکتبِ فکر کو ”فقۂ جعفریہ“ کہا جاتا ہے۔ آپ نے محض نقلی علوم (قرآن و حدیث) پر ہی زور نہیں دیا، بلکہ عقلی علوم (دلیل و منطق) کو بھی اتنی ہی اہمیت دی۔ آپ نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ اسلام آنکھیں بند کر کے مان لینے کا نام نہیں، بلکہ یہ غور و فکر اور تحقیق و تدبر کا دین ہے۔ آپ کی انہی علمی خدمات کے سبب اسلام کا وہ فکری اور روحانی سرمایہ محفوظ ہو گیا جسے وقت کے حکمران اور فکری گمراہیاں مٹا دینا چاہتی تھیں۔ پس، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور، نورِ ہدایت تھا، تو امام صادق علیہ السلام کا نور، اُس ہدایت کو واضح کرنے والا *نورِ علم اور نورِ حکمت تھا۔

نُورٌ عَلَىٰ نُورٍ: دو نوروں کا سنگم

جب ہم سترہویں ربیع الاول کی حقیقت پر غور کرتے ہیں تو قرآن مجید کی ”آیتِ نور“ (سورۃ النور، آیت 35) ہمارے ذہنوں میں گونجنے لگتی ہے، جس کے آخر میں فرمایا گیا ہے: ”نُورٌ عَلَىٰ نُورٍ“(نور پر نور)۔ سترہویں ربیع الاول کا دن اسی آیت کی ایک زندہ اور جاوید تفسیر ہے۔

پہلا نور، یعنی ذاتِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، وہ بنیادی چراغ ہے جو وحیِ الٰہی سے روشن ہوا۔ یہ نور براہِ راست اللہ کی جانب سے آیا تھا۔ لیکن اس نور کی روشنی کو ہر دور کے انسانوں تک صحیح اور شفاف شکل میں پہنچانے کے لیے، اس چراغ پر ایک فانوس کی ضرورت تھی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام کی ذواتِ مقدسہ اسی فانوس کی حیثیت رکھتی ہیں، جس نے نہ صرف اس چراغ کو زمانے کے طوفانوں سے محفوظ رکھا، بلکہ اس کی روشنی کو مزید نکھار کر اور واضح کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہی ”نور پر نور“ کا حقیقی مفہوم ہے کہ نورِ رسالت پر نورِ امامت کا ظہور ہو۔ رسالت کا نور آفتاب کی مانند ہے اور امامت کا نور ماہتاب کی طرح، جو سورج سے ہی روشنی حاصل کر کے رات کی تاریکیوں میں انسانیت کی رہنمائی کرتا ہے۔

عصرِ حاضر کے لیے پیغام

آج جب ہم سترہویں ربیع الاول کا جشن منا رہے ہیں، تو ہمیں اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہے: محبت اور علم ایک طرف، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت اور عقیدت جو ہمارے ایمان کی روح ہے، اور دوسری طرف، آپ کی تعلیمات کو علم، دلیل اور شعور کی روشنی میں سمجھنا، جو اس ایمان کا دماغ ہے۔ آج امتِ مسلمہ جن مسائل کا شکار ہے، ان میں سے بیشتر کا سبب ان دو چیزوں میں سے کسی ایک کی کمی ہے۔ کہیں محبت کا جذبہ اس قدر غالب ہے کہ علم و شعور کی جگہ نہیں رہتی، جس سے انتہاپسندی جنم لیتی ہے۔ تو کہیں علم اور فلسفے کی بحثوں میں انسان اس قدر گم ہو جاتا ہے کہ محبت اور عقیدت کا روحانی تعلق ہی ختم ہو جاتا ہے۔

سترہویں ربیع الاول ہمیں یہی فکری توازن اور اعتدال کا راستہ دکھاتا ہے۔ یہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے دلوں کو عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منور کریں اور اپنے ذہنوں کو حکمتِ صادق علیہ السلام کی روشنی سے مزین کریں۔ یہ دن صرف شیعہ یا سنی کا نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا مشترکہ ورثہ ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کے ہیں اور امام صادق علیہ السلام کا علمی فیض بھی سب کے لیے عام تھا۔ یہ دن ہمیں فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر، محمد و آلِ محمد علیہم السلام کی محبت کے ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا درس دیتا ہے۔ آئیے، اس ”ربیع الانوار“ میں یہ عہد کریں کہ ہم ان دونوں نوروں سے اپنی زندگی کے لیے روشنی حاصل کریں گے اور اپنے عمل سے دنیا کو بتائیں گے کہ اسلام امن، محبت، علم اور انسانیت کا دین ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha