حوزہ نیوز ایجنسی؛ میلاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا حقیقی مقصد جشن منانے کے ساتھ اپنے اخلاق اور رویوں میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی تعلیمات کو اپنانا اور شدت پسندی و عصبیت سے نجات پانا ہے۔ ہر سال ربیع الاول کے مہینے کے ساتھ دل میں ایک روشنی جلتی ہے، کیونکہ اسی مبارک ماہ میں وہ عظیم ہستی تشریف لائی جن کی آمد سے دنیا میں رحمت کا نزول ہوا۔ حضور اکرم ص کی ولادت صرف خوشی کا موقع نہیں، بلکہ یہ انسانیت کے لیے رہنمائی اور اخلاق کے کامل نمونہ کا آغاز ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ" یعنی "اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا۔" اور فرمایا: "وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ" یعنی "ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔" یہ دونوں آیات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ میلاد کا مقصد صرف جشن منانا نہیں، بلکہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی سیرت اور اخلاق کو اپنی زندگی میں لانا ہے۔
حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی بعثت کا مقصد خود آپ کی حدیث میں واضح ہے: "إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ" یعنی "مجھے بس اسی لیے بھیجا گیا کہ میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کر دوں۔" آپ ص کی زندگی میں صبر، حلم، عدل، عفو و درگزر اور رحم کی اعلیٰ مثالیں ملتی ہیں۔ طائف کا واقعہ ہو یا مکہ میں آپ کے مخالفین کی تکالیف، آپ ص نے کبھی بددعا نہیں کی بلکہ ہمیشہ ہدایت اور معافی کی دعا فرمائی۔ یہی اخلاقِ نبی ص ہمیں آج کے معاشرتی مسائل کا حل بتاتے ہیں۔
آج کے معاشرے میں شدت پسندی، عصبیت، اور عدم برداشت عام ہیں۔ معمولی بات پر دشمنیاں، جھگڑے اور دل آزاری عام ہیں، جبکہ سچائی، صبر، اور معافی کی قدر نہیں کی جاتی۔ بعض اوقات ہم سچے عاشقانِ رسول ہونے کا دعوی کرتے ہیں، لیکن ہمارے اندر غصہ، تکبر، اور سخت رویہ موجود ہوتا ہے۔ یہ سب اخلاقی برائیاں آپ ص کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہیں۔ اگر ہم واقعی آپ ص کے پیروکار ہیں تو ہمیں اپنے کردار میں وہ نرم دلی، تحمل، اور رحم لانا ہوگا جو آپ ص کی سیرت کا خاصہ ہے۔
میلاد النبی ص کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں آپ ص کے اخلاق اور ہدایات کو اپنائیں۔ اپنے خاندان، دوستوں، اور معاشرے کے ساتھ عفو و درگزر کریں، سخت رویوں سے بچیں، جھگڑوں میں صبر کریں، اور معاشرتی انصاف قائم کریں۔ ہر انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے اندر موجود شدت پسندی اور عصبیت کی جڑیں کہاں ہیں اور ہم کس طرح انہیں رسول اللہ ص کے اخلاق سے بدل سکتے ہیں۔
ربیع الاول کی برکت اس وقت مکمل ہوتی ہے جب ہم اپنی زندگیوں میں سیرتِ رسول ص کو زندہ کریں۔ میلاد صرف خوشی منانے کا نام نہیں، بلکہ یہ عملی عہد ہے کہ ہم اپنے اعمال، باتوں اور رویوں میں آپ ص کے اخلاق کی پیروی کریں۔ اگر ہم واقعی عاشقانِ رسول ہیں تو ہماری زندگیوں میں محبت، صبر، تحمل، اور اخلاق حسنہ کے آثار ہونے چاہئیں۔ یہی اصل شکرگزاری اور امت مسلمہ کی مضبوطی کا راستہ ہے۔
آئیے اس ربیع الاول پر ہم سب عہد کریں کہ ہم اپنے دلوں سے شدت پسندی، عصبیت اور جھگڑوں کی عادات کو نکالیں گے اور ہر عمل میں اخلاقِ نبی ص کو اپنائیں گے۔ یہی میلاد کا حقیقی پیغام ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم نہ صرف اپنی ذاتی زندگی سنوار سکتے ہیں بلکہ معاشرتی اصلاح اور امن قائم کرنے میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔









آپ کا تبصرہ