تحریر: مولانا حافظ سید ذہین علی نجفی
حوزہ نیوز ایجنسی| ربیع الاوّل کے یہ دن اُس ہستی کی ولادتِ باسعادت کی یاد دلاتے ہیں جو کائنات کی اصل وجہ تخلیق ہیں۔ حضور ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے جہالت و ظلمت کے اندھیرے چھٹ گئے اور دنیا کو حقیقی ہدایت، انصاف اور رحمت کا نور نصیب ہوا۔
قرآن مجید نے اعلان کیا: “وما ارسلناك الا رحمة للعالمين” یعنی اے حبیبؐ! ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
آج بھی دنیا بھر کے مسلمان عاشقانِ رسول ص اپنی اپنی سر زمینوں پر اس دن کو عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔ گلیاں چراغاں سے روشن ہوتی ہیں، مساجد و امام بارگاہیں آباد ہوتی ہیں اور دل درود و سلام کی خوشبو سے مہکتے ہیں۔ یہ صرف خوشی منانے کا دن نہیں بلکہ اپنی زندگیوں کو سیرتِ محمدی ص کے مطابق ڈھالنے کا عہد ہے۔
اقبالؔ نے اسی حقیقت کو عشقِ رسول ص کے تناظر میں یوں بیان کیا:
"کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں،
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں۔"
یہ شعر دراصل اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ مسلمان کی اصل پہچان عشقِ رسول ص ہے اور یہی عشق انسان کو خالقِ کائنات کے قرب سے بہرہ مند کرتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے میلاد النبی ص کے دن میں اختلاف موجود ہے۔ کچھ مسلمان ۱۲ ربیع الاول کو مناتے ہیں اور کچھ ۱۷ ربیع الاول کو۔ یہ محض تاریخی حوالہ جات کا فرق ہے، دونوں کے پاس اپنی اپنی دلیل ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اختلاف کو نزاع نہ بنایا جائے بلکہ دونوں دنوں کو وحدت اور محبت کے ساتھ منایا جائے۔ آخر ذکرِ مصطفیٰ ص ہی تو ہو رہا ہے، اور سچا عشقِ رسولؐ یہی ہے کہ ۱۲ بھی اور ۱۷ بھی، ہر موقع پر میلاد منایا جائے اور حضور ص کی سیرت کو اپنایا جائے۔
حضور اکرم ص کی حیاتِ مبارکہ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ سادگی اور عوامی زندگی میں رہنا عین کمال ہے۔ آپؐ نہ صرف ایک نبی تھے بلکہ عوام کے ساتھ بیٹھنے والے، ان کے دکھ درد کو سمجھنے والے، ان کے ساتھ کھانے پینے اور میل جول کرنے والے رہنما بھی تھے۔ آپؐ نے کبھی جاہ و جلال یا دنیاوی نمود کو پسند نہ فرمایا بلکہ اپنی تعلیمات سے بتایا کہ اصل عظمت سادگی اور خدمت میں ہے۔ یہی پہلو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ مذہب کا مقصد محض رسوم نہیں بلکہ انسان دوستی اور اخوت ہے، اور یہی سرکارؐ کی تعلیمات کا سب سے نمایاں پہلو ہے۔
آج کے دور میں جب دنیا نفرت، شدت اور انتشار سے بھری پڑی ہے، سیرتِ رسولؐ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اصل طاقت دوسروں کے لئے رحمت اور آسانی کا ذریعہ بننے میں ہے۔ اگر ہم حضورؐ کے حقیقی اُمتی ہیں تو ہمیں بھی اپنی ذات کو سراپا رحمت بنانا ہوگا، چاہے علمی و فکری اختلاف کتنا ہی کیوں نہ ہو۔
میلاد النبی ص کا پیغام یہی ہے کہ ہم اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کریں کہ سرکار ختمی مرتبت ص کی تعلیمات آج بھی زندہ ہیں اور ہماری نجات کا واحد راستہ انہی کے نقشِ قدم پر چلنے میں ہے۔









آپ کا تبصرہ