حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ محمد امین شہیدی سربراہ امت واحدہ پاکستان، آپکا شمار ملک پاکستان کے معروف ترین علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز میں ہوتا ہے جو دلیل و منطق کے ساتھ اپنا موقف پیش کرتے ہیں، خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز، مذاکروں اور مذہبی محافل میں شریک ہو کر اپنی بات مؤثر انداز میں بیان کرتے ہیں۔ علامہ امین شہیدی اتحادِ بین المسلمین کے حقیقی داعی ہیں اور ملکی و عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ اپنے خطابات میں نہایت دقیق اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی نے "ہفتہ وحدت" کے حوالے سے علامہ محمد امین شہیدی سے ایک خصوصی انٹرویو کیا جو سوال و جواب کی صورت میں پیش خدمت ہے۔
حوزہ: آپ کے نزدیک "ہفتہ وحدت" کی اصل حکمت اور پیغام کیا ہے؟
علامہ محمد امین شہیدی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
اگرچہ "ہفتہ وحدت" اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلاب کے بعد ایک نعرے اور امتِ مسلمہ کی آواز کے طور پر دنیا میں متعارف ہوا، لیکن اس کی بنیاد بہت پرانی ہے۔ قرآن مجید نے امت کو متحد رہنے، اختلاف سے بچنے اور یکجہتی اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ اسلام نے اتحاد کو امت کی طاقت کا سرچشمہ اور تفرقے کو کمزوری کا سبب قرار دیا ہے۔
اسی تناظر میں "ہفتہ وحدت" کا انعقاد دراصل قرآن کی اس دعوت پر لبیک کہنا ہے، تاکہ امت اپنے مشترکات کی بنیاد پر اکٹھی ہو، اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اسلام اور مسلمانوں کو درپیش چیلنجز کے مقابلے میں ایک آواز ہو کر کھڑی ہو۔ یہی اس ہفتے کی اصل حکمت اور پیغام ہے۔
حوزہ: عصر حاضر میں امتِ مسلمہ کو کیا بڑے چیلنجز درپیش ہیں؟ اور آپ کے نزدیک ان کا حل کس حد تک "وحدتِ مسلمین" میں پوشیدہ ہے؟
علامہ محمد امین شہیدی: آج امتِ مسلمہ کو سب سے بڑا چیلنج عالمِ کفر اور عالمِ شرک کی یلغار ہے۔ یہ یلغار صرف عسکری نہیں بلکہ فکری، ثقافتی، عقائدی اور تہذیبی سطح پر بھی ہے۔ دشمن کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزار کر مزید کمزور کیا جائے۔
اگر ہم آج شام، عراق، یمن، افغانستان اور فلسطین کی صورتحال دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ تفرقے کی وجہ سے امت اجتماعی طاقت سے محروم ہے۔ اگر مسلمان اپنے اختلافات کو کم کر کے مشترک دشمن کے مقابلے میں متحد ہو جائیں تو نہ صرف اپنے دفاع کو مضبوط بنا سکتے ہیں بلکہ معاشی، علمی اور تکنیکی میدان میں بھی ایک عالمی قوت بن کر سامنے آسکتے ہیں۔
حوزہ: عالمی طاقتیں اور دشمن قوتیں کس طرح مسلمانوں میں اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؟
علامہ محمد امین شہیدی: عالمی طاقتوں کا ہمیشہ سے یہی ایجنڈا رہا ہے کہ مسلمانوں کو لسانیت، قومیت اور جغرافیائی تقسیم کی بنیاد پر بانٹ دیا جائے۔ چھوٹے اختلافات کو بڑھا چڑھا کر نفرتیں پیدا کی جاتی ہیں تاکہ مسلمان اپنی توانائیاں انہی مسائل میں ضائع کریں اور دشمن ان کے وسائل پر قابض ہو سکے۔
افسوس یہ ہے کہ مسلمان ممالک بارہا ان سازشوں کا شکار ہوئے ہیں اور سبق سیکھنے کی بجائے مزید انہی کے جال میں پھنس گئے ہیں، جس کا نتیجہ ذلت، پسپائی اور عالمی سیاست میں کمزوری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
حوزہ: مظلوم مسلم اقوام (خصوصاً فلسطین) کی حمایت میں اتحادِ امت کا کردار کیا ہونا چاہیے؟
علامہ محمد امین شہیدی: فلسطین، یمن، شام اور لبنان کے مظلوم عوام مسلسل امت کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ غزہ میں لاکھوں افراد شہید ہوئے لیکن مسلمان ممالک باہمی اختلافات کی وجہ سے مؤثر اقدام نہ اٹھا سکے۔
اگر مسلمان ایک امت کی حیثیت سے متحد ہو جائیں تو نہ اسرائیل، نہ اس کے حامی مغربی ممالک ان کے مقابلے میں ٹھہر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج امت گروہوں میں بٹی ہوئی ہے جس کا کوئی حقیقی رہنما یا مقصد نہیں۔
اس صورتحال کو بدلنے کے لیے سب سے پہلے علماء اور دینی اداروں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ وہ اپنی تقریروں، مساجد، مدارس اور منبروں کے ذریعے قرآن کے مشترکہ پیغام کو اجاگر کریں، عوام میں شعور پیدا کریں اور دشمن کی سازشوں کو بے نقاب کریں۔ یہی امت کو بیدار کرنے کا راستہ ہے۔
حوزہ: علماء و خطباء کو اپنے خطابات اور دروس میں وحدت کا پیغام کس انداز میں پیش کرنا چاہیے؟
علامہ محمد امین شہیدی: اس وقت سب سے ضروری چیز بین المسالک مکالمہ ہے۔ مسالک کے اختلافات کو علمی مباحث اور تعمیری گفتگو کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور اخبارات کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے فرقہ واریت کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور مشترکات کو نمایاں کیا جائے۔
کوئی مسلک یا فرقہ دوسرے کو ختم نہیں کر سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ سب اپنے اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے باہمی احترام اور رواداری کے ساتھ ایک دوسرے کو قبول کریں اور مشترکہ مفادات کے لیے متحد ہو کر کھڑے ہوں۔
حوزہ: مدارس اور جامعات کے نصاب کو "تقریب بین المسالک" کے فروغ کے لیے کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے؟
علامہ محمد امین شہیدی: مدارس و جامعات کو نصاب میں ایسے موضوعات شامل کرنے چاہئیں جو مشترکات کو اجاگر کریں اور امت میں ہم آہنگی پیدا کریں۔ دینی تعلیمات کی وہ اصل روح جو اتحاد پر زور دیتی ہے، اسے تعلیم اور تربیت کا حصہ بنایا جائے۔ اس کے اثرات آئندہ نسلوں پر بھی مرتب ہوں گے اور ایک نئی باشعور نسل تیار ہوگی جو امت کی تشکیل میں کردار ادا کرے گی۔
حوزہ: نوجوان نسل تک وحدت کا پیغام پہنچانے کے لیے جدید ذرائع کے استعمال کی کیا اہمیت ہے؟
علامہ محمد امین شہیدی: آج کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ ہر نوجوان موبائل اور انٹرنیٹ سے جڑا ہوا ہے۔ لہذا علماء اور دانشوروں کو چاہیے کہ سوشل میڈیا کو مثبت انداز میں استعمال کریں اور اپنی ذمہ داری ادا کریں۔
مدارس اور تعلیمی اداروں میں طلبہ کو اس حوالے سے تربیت دی جائے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے دین کا مثبت چہرہ پیش کریں۔ اگر اس ذریعہ کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یہ دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں امت کو جوڑنے اور متحد کرنے کا ایک مضبوط ہتھیار بن سکتا ہے۔
خلاصہ پیغام:
امت مسلمہ کے تمام طبقات، خصوصاً علماء، خطباء اور تعلیمی ادارے، اگر مشترکات کو بنیاد بنا کر وحدت کی دعوت دیں اور جدید ذرائع کو بروئے کار لائیں تو دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا کر امت کو ایک مؤثر اور مضبوط عالمی قوت بنایا جا سکتا ہے۔









آپ کا تبصرہ