حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ٹوبہ ٹیک سنگھ/ امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے دعا کمیٹی ٹوبہ ٹیک سنگھ کی دعوت پر وہاں کا تین روزہ دورہ کیا جس میں ایامِ فاطمیہ کے حوالے سے مرکزی امام بارگاہ میں دو روزہ مجالسِ عزا سے خطاب کیا اور 34ویں ماہانہ دعائے کمیل میں شرکت و تلاوت کی۔ اس دورہ کے دوران علامہ محمد امین شہیدی نے مقامی ہوٹل میں دعا کمیٹی کے زیر اہتممام "وحدتِ امت عصری تقاضے" کے عنوان پر سیمینار سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے معاشرے میں باہمی اخوت و رواداری اور مشترکات کی بنیاد پر ایک پرامن معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے اتحاد بین المسلمین کو خدا کا ایک اہم حکم قرار دیا۔ سیمینار سے تحریک اویسیہ پاکستان پنجاب کے جنرل سیکریٹری مولانا حبیب اللہ اویسی، مولانا محمد عباس وزیری، مولانا محمد حسین جعفری اور دعا کمیٹی کے آرگنائزر زاہد حسین مہدوی نے بھی خطاب کیا۔
علامہ محمد امین شہیدی نے دورہ کے دوران اہلِ سنت ٹوبہ ٹیک سنگھ کی سب سے بڑی درسگاہ جامعہ کریمیہ رضویہ کا بھی دورہ کیا۔ مولانا منعم حسنین صدیقی اور جامعہ کے اساتذہ کرام نے امتِ واحدہ پاکستان کے وفد کا پرتپاک استقبال کیا۔
اس موقع پر علامہ محمد امین شہیدی نے جامعہ کے زیرِ تعلیم طلباء اور ان کے اساتذہ کو امتِ واحدہ پاکستان کی جانب سے شیعہ سنی اتحاد کے لئے ملک بھر میں کی جانے والی کوششوں سے آگاہ کیا۔ علامہ منعم حسنین صدیقی نے علامہ محمد امین شہیدی کی کاوشوں کو سراہا اور شیعہ سنی علماء کے ایک دوسرے کے مدارس و اداروں کے دورہ جات بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ان کے دورہ کو خوش آئند قرار دیا۔ علامہ محمد امین شہیدی نے مقامی نوجوانوں اور آئی ایس او کے ممبران سے بھی ملاقات کی۔
تصویری جھلکیاں: دعا کمیٹی، ٹوبہ ٹیک سنگھ کی جانب سے "وحدتِ امت عصری تقاضے" کے عنوان پر سیمینار
"وحدتِ امت عصری تقاضے" کے عنوان پر سیمینار سے خطاب میں علامہ محمد امین شہیدی نے امتِ واحدہ پاکستان کے اہداف و مقاصد کو تفصیل سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت عالمِ اسلام کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن کا مل کر مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ دیکھا جائے تو شیعہ سنی مشترکات، اختلافات کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔جبکہ ہندو، یہودیت، عیسائیت، بدھ مت اور سکھ مذاہب میں انسانی حوالہ سے اشتراک کے باوجود فکری، اخلاقی، نظریاتی اور عقائد کے حوالہ سے اختلاف موجود ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں سندھ میں ہندو اور مسلمان آپس میں امن سے رہتے ہیں۔ مانسہرہ، پشاور اور بٹ گرام میں سکھ آبادی رہائش پذیر ہے لیکن ان کا مسلمانوں سے کوئی تنازعہ نہیں۔ یہاں اہلِ کفر کے لئے مسلمانوں میں تحمل اور بردباری بہت زیادہ نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس مسلمان فرقے آپس میں عدم برداشت کا شکار ہیں۔ نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر دوسروں کی تکفیر کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کو گستاخ، مشرک اور بدعتی کہ کر پکارا جاتا ہے۔ عدم علم یا فہم کے اختلاف کا اثر ہمارے اخلاق پر نہیں ہونا چاہیے۔ تکفیر اور الزام تراشی کے پیچھے نام نہاد ملا کا پیٹ ہے جس سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے اور اسے فتنہ و فساد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ قرآن مجید کا مزاج یہ ہے کہ یہ اہلِ کتاب (یہود و نصاری) کو بھی جوڑنے کی دعوت دیتا ہے کیونکہ ان سب کے درمیان خدا کا تصور مشترک ہے۔ اور جب قرآن مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے تو صدرِ اسلام سے لے کر قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے اعلان کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھیوں سے مراد وہ افراد ہیں جو رسولِ خدا کی رسالت پر ایمان لا کر ان کی راہ پر چل رہے ہیں۔ رسول (ص) کے تمام رفقاء کے لئے قرآن کا اعلان ہے کہ وہ آپس میں مہربان اور دشمن کے مقابلہ میں سخت ہیں۔ پس قرآن کی دعوت کی روشنی میں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
امتِ واحدہ پاکستان کے قیام کا مقصد مشترکات پر کام کرتے ہوئے تمام مسالک کو آپس میں جوڑنا ہے، شرط خدا کی توحید کا اقرار اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس میں ناصبیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ امتِ واحدہ سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہے، بلکہ یہ صاحبانِ فکر، اہلِ دانش اور معتدل علمائے کرام پر مشتمل ایک فورم ہے جس کا بنیادی ہدف دین کی معرفت کو عام کرتے ہوئے لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنا، دین کو تقویت پہنچانا اور دین کے دشمنوں کے مقابلہ میں انہیں ایک مضبوط طاقت بنانا ہے۔ عاشقانِ رسول (ص) کے قلوب کو آپس میں جوڑنا ہے اور یہ عین حکمِ خداوندی ہے۔ اسی ہدف کے تحت امتِ واحدہ پاکستان کی جانب سے مختلف شہروں میں نشستوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ان نشستوں میں اللہ کا کلمہ پڑھنے والے اور اس کے رسول (ص) کے چاہنے والے اہل علم، باشعور افراد اور علمائے کرام بھائی چارہ اور دینی معارف کے فروغ کے لئے مل کر کام کر رہے ہیں۔