حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لاہور/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں انسان کی ضرورت کی ہر چیز مہیا کر دی ہے اور زندگی کے تمام تقاضے اس کی دسترس میں ہیں۔انسان کا کام اللہ کی اطاعت اور ان نعمتوں کا صحیح استعمال ہے۔انسانی زندگی امتحان سے عبارت ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ قرآنی تعلیمات سے ثابت ہوتا ہے کہ فقط ایمان لانا کافی نہیں بلکہ آزمائش و امتحان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہر شخص کا مختلف طریقوں سے امتحان لیا جاتا ہے۔کبھی فقر و غربت سے تو کبھی سرمایہ و ثروت سے، کبھی عہدہ و منصب سے اور کبھی صحت و بیماری سے ۔ بیماری چاہے انفرادی ہو ، اجتماعی ہو یا عالَمگیر وبا ہو سب میں اللہ کی طرف سے آزمائش ہے۔حضور نے ہجرت فرمائی جس کے نتیجہ میں مدینہ میں اسلامی حکومت قائم کی۔ جو بھی اللہ کیلئے اس کی راہ میں ہجرت کرتا ہے اسے دنیا اور آخرت میں اجر ملتا ہے۔حضرت مریم واحد خاتون ہیں جن کا قرآن میں نام ذکر ہوا ہے۔حضرت ابراہیم ؑ کو مسلمانوں کے علاوہ نصرانی اور یہودی بھی مانتے ہیں۔دونوں مذاہب انہیں اپنے میں سے قرار دیتے تھے ۔ قرآن مجید نے دونوں کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ حضرت ابراہیم مسلمان تھے۔
صدیوں پہلے یہودیوں، نصرانیوں کے ان دعوؤں کو پھر سے زندہ کرتے ہوئے امریکہ اور اسرائیل نے عربوں کو معاہدہ ابراہیمی کے فریب میں الجھایا جبکہ اسرائیل کے مظالم دنیا جانتی ہے، عورتوں، بچوں بے گناہوں پر ظلم اسرائیل کی دیرینہ روایات ہیں۔قرآن مجید میں کافی رسولوں اور نییوں کا ذکر ہے۔رسول اور نبی میں فرق یہ ہے نبی کو علم ہوتا ہے لیکن وہ لوگوں کے پاس جاکر انہیں نہیں بتاتے بلکہ لوگ ان سے آکر پوچھنا چاہیں تو بتاتے تھے۔ جبکہ رسول کو حکم ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے پاس جاکر اللہ کے احکام پہنچائیں۔عبادات میں نماز کی بے حد اہمیت ہے۔اوّل وقت میں نما زکی ادائیگی شیعیت کی علامت ہے۔ اس کے بعد حقوق العباد اور حسن ِ سلوک کی تاکید ہے۔حضرت علی ؑ نے دین کی مختصر تعریف یہ کی ہے ”خالق کی اطاعت اور مخلوق سے شفقت و مہربانی کا سلوک“۔
جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ انبیاءؑ بھی امتحان و آزمائش کے مرحلے سے گزرے ۔حضرت زکریا ؑ کا امتحان لیا گیا، جناب ِ مریم کی کفالت کی ذمہ داری ان کے حصہ میںآئی جو بیت المقد س میں رہتی تھیں۔یہ ان کی ضروریات ِ زندگی پوری کرتے ۔ یہ بھی دیکھتے کہ مریم ؑکے پاس ہر قسم کے پھل کہیں سے آرہے ہیں ۔ حضرت زکریا ؑ کو اولاد کی خواہش تو تھی لیکن ظاہری اسباب ناسازگار تھے۔ان کی اپنی عمر بہت زیادہ ہو چکی تھی لیکن اللہ سے دعا مانگی تو خدا نے بیٹا عطاءکیا۔ حضرت مریم واحد خاتون ہیں جن کا قرآن میں نام ذکر ہوا ہے ان کے علاوہ کسی بھی عورت کا نام نہیں ہے۔اس عظمت کے باوجود انہیں بھی امتحان کا سامنا کرنا پڑا اور وہ امتحان بڑا سخت تھا جب ان کی عفت پر اعتراض کیے گئے ۔ وہ اس سے پریشان تو بہت ہوئیں مگر اللہ نے سرخرو کیا اور کمسنی کے باوجود حضرت ِ عیسیٰ ؑ نے ماں کی عفت و پاکدامنی کی گواہی دی۔حضرت ابراہیم ؑ جیسے اولو العزم نبی کا بھی امتحان لیاگیا جس کی تفسیر قرآن میں مذکور ہے۔آذر جیسے تربیت کرنے والے چچا کی مخالفت کا سامنا کیا، جس نے انہیں انتہائی سخت دھمکی دی کہ اگر توحید کے پرچار سے بازنہ آئے تو سنگ باری کر کے سخت تکلیف سے دو چار کیا جائے گا اور انہیں گھر، وطن چھوڑنے کاحکم دیا۔اس قدر سخت باتوں کے جواب میں حضرت ابراہیم ؑ نے انہیں حلم و بردباری سے سلام کہا اور ان کیلئے طلب ِ مغفرت کا اظہار کیا۔وطن کا چھوڑنا حضرت ِ ابراہیم ؑکی ہجرت تھی۔حضور نے بھی ہجرت فرمائی جس کے نتیجہ میں مدینہ میں اسلامی حکومت قائم کی۔ جو بھی اللہ کیلئے اس کی راہ میں ہجرت کرتا ہے اسے دنیا میں بھی اچھا اجر ملتا ہے اور آخرت میں بھی۔حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ پیغمبر اکرم کے تربیت کردہ اصحاب میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہہ نمایاں شخصیت ہیں۔حضرت علی ؑ نے انہیں مدائن (بغداد) کا گورنر بنا کر بھیجنا چاہا تو انہوں نے مولا کی خدمت میں رہنے کو ترجیح دی لیکن حکم ِ امام پراس شرط کے ساتھ مدائن تشریف لے گئے کہ امام علی ؑ ان کا جنازہ پڑھانے آئیں گے۔سرکاری رہائش گاہ میں رہنے کی بجائے چھوٹی سی دکان میں بسیرا کیا ۔ سیلاب آیا تو استعمال کی چند معمولی چیزیں لے کر کہیں چلے گئے ۔مولا ؑنے موت کی دو نشانیاں بتائی تھیں ایک یہ کہ جب موت کا وقت قریب آئے گا دودھ ہضم نہ ہوگا دوسرا مردہ ان سے گفتگو کرے گا۔بیماری کے عالَم میں جب دود ھ ہضم نہ ہوا تو سمجھ گئے وقت قریب ہے۔ دوسری نشانی کا پتا چلانے کیلئے قبرستان گئے ، قبر میں ایک مردہ کو آواز دی اس نے کہا کہ کل دوبارہ آنا۔اگلے دن گئے تو اس نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ زندگی میں ایک ایسی غلطی کی سز ا مجھے اب تک ملتی رہتی ہے ۔ میں نے ایک قصاب سے گوشت خریدا تو اس کے علم میں لائے بغیر ایک بوٹی تبدیل کر لی جو اب سانپ بن کر ہر دوسرے دن مجھے ڈسنے آجاتی ہے۔آپ اس قصاب سے میرے لیے معافی کی درخواست کریں۔اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کی حق تلفی چاہے معمولی بھی ہو اس کی سخت سزا ملتی ہے۔اللہ تعالیٰ بھی حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک کہ وہ شخص معاف نہ کرے۔