تحریر: عامر عباس (جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کراچی)
حوزہ نیوز ایجنسی| اسلام ایک ایسا دین ہے جو امن، محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآنِ مجید نے صاف الفاظ میں فرمایا: "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (آل عمران: 103) یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔
رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی پوری زندگی میں مسلمانوں کو ایک امت بنانے کی کوشش کی، لیکن بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلکی اختلافات اور تنگ نظری نے مسلمانوں کو کمزور کر دیا۔ امام خمینیؒ نے اسی پس منظر میں 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک کے ایام کو "ہفتۂ وحدت" قرار دیا، تاکہ شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے قریب آئیں اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔
امت کی حالت اور وحدت کی ضرورت:
ہم سب جانتے ہیں کہ امتِ مسلمہ کے درمیان بہت سے فقہی اور فکری اختلافات موجود ہیں۔ انہی اختلافات کی وجہ سے دشمن قوتیں ہمیں کمزور کرتی ہیں۔ قرآن بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تفرقہ دراصل کمزوری اور ذلت کا باعث بنتا ہے:
"وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ" (الأنفال: 46) یعنی آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
امیرالمؤمنین حضرت علیؑ فرماتے ہیں:
"اللہ کی قسم! اللہ نے کسی بھی نعمت کو تقسیم ہونے کے بعد عزت نہیں بخشی، اور نہ ہی کسی قوم کو متحد ہونے کے بعد ذلیل کیا ہے۔" (نہج البلاغہ، خطبہ 176)
ہفتۂ وحدت کے پیغامات اور ہماری ذمہ داریاں
1۔ دینی و فکری یکجہتی
ہفتۂ وحدت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے درمیان بنیادی عقیدہ ایک ہے: توحید، قرآن، نبوتِ محمدی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم اور کعبہ۔ ہمیں انہی اصولوں پر متحد ہونا چاہیے۔
2۔ مسلکی احترام اور برداشت
اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کو ایک دوسرے کی عبادات، مساجد اور اجتماعات کا احترام کرنا چاہیے۔ اختلاف کو دشمنی میں بدلنے کے بجائے مکالمہ اور علم کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔
3۔ سماجی ذمہ داریاں
غریبوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی خدمت شیعہ اور سنی دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے میں مددگار ہوں گے تو وحدت مضبوط ہوگی۔
4۔ سیاسی و اجتماعی اتحاد
اسلام دشمن طاقتیں ہمیشہ مسلمانوں کو تقسیم کر کے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ہمیں فلسطین، کشمیر اور دیگر مظلوم مسلمانوں کے دفاع میں ایک آواز بننا چاہیے۔ امام خامنہ ای فرماتے ہیں:
"اسلامی وحدت کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب اسلام اور قرآن کے جھنڈے تلے متحد ہوں اور دشمن کے مقابلے میں ایک صف میں کھڑے رہیں۔" (بیانات، وحدت اسلامی کانفرنس، 1987)
5۔ علمی و تعلیمی تعاون
شیعہ اور سنی مدارس، جامعات اور علمی اداروں کو تحقیق اور تعلیم کے میدان میں تعاون کرنا چاہیے، تاکہ امت دوبارہ علمی عظمت حاصل کرے۔
نتیجہ:
ہفتۂ وحدت صرف ایک ہفتہ نہیں بلکہ ایک پیغام ہے: "ہم سب ایک امت ہیں"۔ ہماری اصل ذمہ داری یہ ہے کہ ہم چھوٹے اختلافات کو پسِ پشت ڈالیں اور اسلام کے عظیم مقاصد کے لیے متحد ہو جائیں۔ اگر ہم نے یہ ذمہ داری پوری نہ کی تو دشمن ہمیشہ ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا رہے گا۔
قرآن کا اعلان ہے:
"إِنَّ هٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ" (الأنبیاء: 92) یعنی یہ امت تمہاری ایک ہی امت ہے اور میں ہی تمہارا رب ہوں، پس میری عبادت کرو۔
حوالہ جات:
1. قرآن مجید (آل عمران: 103، الأنفال: 46، الأنبیاء: 92)
2. نہج البلاغہ، خطبہ 176
3. امام خمینی، صحیفۂ نور، ج 13
4. آیت اللہ خامنہ ای، بیانات وحدت اسلامی کانفرنس، 1987









آپ کا تبصرہ