تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی| ذاتِ واجب نے اپنے تعارف کے لئے ایک نور خلق کیا اور اسی نور واحد کو 2، 5، 14 میں تقسیم کیا۔ اسی کے صدقے میں ہر ممکن الوجود کو لباس وجود عطا کیا۔ عرش کی عظمت ہو یا کرسی کا وقار، جنت کا سکون ہو یا کوثر کی فضیلت، آسمانوں کی رفعتیں ہوں یا زمین کی وسعتیں، سورج کی تابانی ہو یا چاند کی چاندنی، سمندروں کی طغیانی ہو یا دریاؤں کی روانی، ہوا و فضا ہو یا جمادات و نباتات ہوں یا حیوانات و انسان ہوں سب اسی نور کے صدقے میں خلق ہوئے؛ اگر یہ نور نہ ہوتا تو کچھ نہ ہوتا، صرف وہی ہوتا جو وحی کرتا ہے۔
اللہ رے محبوب کبریاء کی عظمت کہ جب کسی نبی کو نبی بنایا یا کسی رسول کو رسول منتخب کیا تو اس سے جہاں اپنی کبریائی اور احدیت کا کلمہ پڑھوایا وہیں اپنے محبوب کی رسالت و نبوت اور ان کے وصی اور اپنے ولی کی ولایت کا اقرار لیا۔ جہاں ذات واجب نے رسول اللہ کی رسالت، ولی اللہ کی ولایت کا اقرار لیا وہیں ثار اللہ و ابن ثاره سبط رسول الثقلین حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت و مظلومیت کی خبر دے کر عزاداری کرائی اور ان کے قاتل پر لعنت بھیجوائی۔
یہ نور صلب آدم (علیہ السلام) میں آیا تو وہ مسجود ملائکہ بنے، صلب نوح (علیہ السلام) میں آیا تو ان کی کشتی کو نجات ملی، صلب ابراہیم خلیل (علیہ السلام) میں جلوہ فگن تھا تو نار نمرودی گلزار ہو گئی۔ یہ نور جن اصلاب و ارحام میں مستقر ہوا ان کی پیشانیاں ایسا منور ہوئیں کہ کہ ظلمت شب میں بھی بدر کامل نظر آئیں۔
اس نور کا جلوہ صرف ان اصلاب و ارحام تک محدود نہ رہا بلکہ ہر نبی ہر رسول کو عظمت و فضیلت اسی نور سے حاصل ہوئی۔ آدم (علیہ السلام) کو علم کا خزینہ، نوح (علیہ السلام) کو نجات کا سفینہ، ابراہیم (علیہ السلام) کو خُلّت کا نگینہ، موسیٰ (علیہ السلام) کو تابوت سکینہ، عیسیٰ (علیہ السلام) کو زہد کا قرینہ، سلیمان (علیہ السلام) کو حکومت، داؤد (علیہ السلام) کو حکمت اور یوسف (علیہ السلام) کو جمال انہی سے ملا۔
یہی نور، نور اول ہے، خلق اول ہے، عقل اول ہے، اسم اعظم ہے، حجاب اقرب ہے، جانب ممکن ہے، کائنات کے لئے فیض الہی کا واسطہ ہے۔
یہی وہ نور ہے کہ جس کی رسالت و نبوت کی بشارت گذشتہ انبیاء و مرسلین (علیہم السلام) اور کتب و صحف آسمانی نے دی۔ یہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے سردار ہیں، ان کے جانشین تمام جانشینوں کے سردار ہیں، ان کی امت تمام امم سے افضل و بہتر ہے، ان کی شریعت تمام شرائع اور مذاہب سے کامل تر ہے، یہ صاحب حوض و لوائے حمد اور صاحب وسیلہ اور عظیم شفیع ہیں۔
گزشتہ انبیاء اور کتب کے مطابق اللہ تعالی نے اپنے محبوب کو مختلف ناموں سے یاد کیا جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں
محمد، احمد، الماحى، العاقب، الحاشر، رسول رحمت، رسول توبه، رسول امم، المقتفى، القثم، شاهد بر انبيا و امم، بشير، نذير، سراج منير، ضحوك، قتّال، متوكل، فاتح، امين، خاتم، مصطفى، رسول و پيامبر امى، حاد، مزمل، مدثر، كريم، نور، عبد، رءوف، رحيم، طه، يس، منذر، مذكّر.
روایات کے مطابق جنتی ان کو عبدالکریم کہتے ہیں، اہل جہنم عبدالجبار کہتے ہیں، سکان عرش و ملائکہ کے نزدیک عبدالحمید ہیں، انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے نزدیک عبدالوہاب ہیں، شیاطین عبدالقہار کہتے ہیں، اجنہ عبدالرحیم کہتے ہیں، پہاڑوں پر ان کا نام عبدالخالق ہے، خشکی میں عبدالقادر تو دریا میں عبدالمہیمن، مچھلیاں عبدالقدوس کہتی ہیں، حیوانات کا ایک گروہ عبدالغائب تو دوسرا عبدالرزاق اور تیسرا عبد السلام کہتا ہے، چوپائے عبدالمومن تو پرندے عبدالغفار کہتے ہیں، تورات میں مود مود، انجیل میں طاب طاب، صحف میں عاقب، زبور میں فاروق، خدا کے نزدیک طہ و یاسین، مومنین محمد کنیت ابوالقاسم اور جبرائیل نے ابو ابراہیم کہہ کر سلام کیا۔
آخر یہی نور اصلاب شامخہ اور ارحام مطہرہ سے ہوتا ہوا صلب عبداللہ میں پہنچا اور ان کی پیشانی پر چمکا۔ جو اسلام نہیں بلکہ بانی اسلام کی ولادت سے پہلے بھی بہ معنی اتم و اکمل عبد اللہ تھے۔ اور صلب عبداللہ سے یہ نور اول و گوہر رسالت صدف رسالت یعنی رحم آمنہ سلام اللہ علیہا میں منتقل ہوا۔
صدف رسالت کا بیان ہے کہ ان ایام میں نہ کبھی کسی درد کا احساس ہوا اور نہ کبھی کوئی پریشانی لاحق ہوئی۔ ہر ماہ انبیاء الہی میں سے کوئی نبی ظاہر ہوتے اور وہ خیر الانام کی ولادت کی بشارت دیتے۔ نیز ہر ماہ آسمان سے ندائے قدرت بلند ہوتی کہ "میلاد مسعود نزدیک ہے۔"
ماہ اول میں خلیفہ اول حضرت آدم علیہ السلام ظاہر ہوئے اور انہوں نے حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا کو مبارک باد اور بشارت دی۔ ماہ دوم میں حضرت ادریس علیہ السلام نے مبارک باد دی، تیسرے ماہ صاحب سفینہ نجات حضرت نوح علیہ السلام نے مبارک باد دی، چوتھے ماہ میں خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حبیب کبریاء کی آمد کی مبارک باد دی، پانچویں ماہ میں حضرت داؤد علیہ السلام نے مبارک باد دی، چھٹے ماہ میں ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مبارک باد دی، ساتویں ماہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے مبارک باد دی، آٹھویں ماہ میں کلیم خدا حضرت موسی علیہ السلام نے بشارت و مبارکباد دی۔ نویں ماہ میں روح اللہ حضرت عیسی علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت اور انکی ولادت کی مبارک باد کی۔
اللہ نے اپنے حبیب و محبوب کی سکونت کے لئے جہاں اصلاب شامخہ اور ارحام مطہرہ کا انتخاب کیا وہیں ولادت کے لئے اپنے حرم بلد الامین مکہ مکرمہ کو مقرر کیا۔ یعنی مکان کے حوالے سے بہترین مکان کا انتخاب کیا۔ جب زمان کا مرحلہ آیا تو اس سال کا انتخاب کیا جسمیں بیت اللہ خانہ کعبہ کو تحفظ و عظمت عطا کی تھی، خلق اول کی ولادت کے لئے ماہ بہار اول یعنی ربیع الاول کا انتخاب کیا۔ تاریخ کے حوالے سے اہل سنت 12 کے قائل تو شیعہ روز جمعہ 17 مانتے ہیں۔ پیکر انسانی میں ولادت کی تاریخ میں اختلاف ضرور ہے لیکن حقیقت یہ ہے یہ اس وقت بھی تھے جب نہ کوئی زمان تھا اور نہ مکان تھا۔ بلکہ اگر یہ نہ ہوتے تو اللہ نہ زمان کو خلق کرتا اور نہ ہی مکان کو تخلیق کرتا۔
آخر وہ شب آ گئی جس کی صبح میں اسی خلق اول کی ولادت ہوئی۔ جس سراج منیر کے نور سے سورج کو ضیاء ملی ہو اسکی نورانیت پر گفتگو کیا کی جائے، جس کے پسینے سے اللہ نے خوشبو کو خلق کیا ہو اسکی خوشبو کے سلسلہ میں کیا کلام کیا جائے۔ ہاں روایت میں ملتا ہے کہ وہ جہاں سے گذر جاتے وہ راستہ، وہ جگہ منور و معطر ہو جاتی۔
شب ولادت ایوان کسری کے 14 کنگورے ٹوٹ گئے، فارس کا آتش کدہ بجھ گیا، دریائے ساوہ خشک ہو گیا، مکہ مکرمہ میں سارے چھوٹے خدا بت سرنگوں ہو گئے، بادشاہ انوشیروان نے انتہائی وحشت ناک خواب دیکھا۔ دنیا کا عجیب عالم تھا کہ سب کو بہکانے والا شیطان خود ششدر تھا کہ یہ کیا ہو گیا؟ آسمان پر جانا چاہا تو فرشتوں نے تیر بارانی کی کہ اب تو آسمان پر نہیں آ سکتا، مکہ مکرمہ میں جانا چاہا تو سید الملائکہ جبرئیل علیہ السلام نے یہ کہہ کر روک دیا کہ ائے ملعون! تو نہیں آسکتا۔
جسکی ولادت کی بشارت معصوم نبیوں نے دی تھی، کائنات کے ذرہ ذرہ کو جس کا انتظار تھا اسکی ولادت کا وقت آن پہنچا تو ملائکہ خدمت کے لئے حاضر ملے، حوران بہشتی نے اسکی خدمت کو اپنا شرف سمجھا۔ مکہ میں نور چمکا کہ نور اول کی ولادت ہو گئی۔ جب سینۂ گیتی پر قدم پر رکھا تو فرمایا: "
اَللّهُ أکبَرُ وَ الْحَمْدُلِلّهِ کثیراً، سُبْحانَ اللّهِ بُکرَةً وَ أصیلاً"
رئیس مکہ شیخ بطحاء حضرت عبدالمطلب علیہ السلام مسرور ہوئے، حضرت ابوطالب علیہ السلام کی خوشی کی انتہاء نہ تھی۔ جناب فاطمہ بنت اسد نے دیکھا تو مسرور ہوئیں لیکن ایک حسرت بھی ہوئی کہ ائے کاش! ایسا بیٹا اللہ مجھے بھی دیتا۔ زوجہ کی پیشانی پر حسرت کی پریشانی دیکھ کر مومن کامل حضرت ابوطالب علیہ السلام نے فرمایا: حسرت کا شکار نہ ہو انشاء اللہ 30 برس بعد اللہ تمہیں بھی ایسا بیٹا دے گا جو اس کا وصی و جانشین ہوگا۔
خاتم الانبیاء نجم الثاقب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شیخ الائمہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت بہت بہت مبارک ہو۔









آپ کا تبصرہ