حوزہ علمیہ قم کی گزشتہ صدی کی ایک نمایاں اور اہم برکت، خواتین کے دینی مدارس کی ہمہ گیر اور مؤثر فعالیت ہے؛ محترمہ زہرا برقعی

حوزہ/ جامعہ الزہرا (س) کی مدیر سیدہ زہرا برقعی نے کہا ہے کہ گزشتہ صدی میں حوزہ علمیہ قم کی ایک اہم اور نمایاں برکت خواتین کے دینی مدارس کی وسیع فعالیت ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں باایمان، عالمہ، باحجاب، بااخلاق اور باصلاحیت خواتین مختلف شعبوں میں جیسے تبلیغ، تدریس، تحقیق اور انتظامی امور میں قومی و بین الاقوامی سطح پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم: جامعہ الزہرا (س) کی مدیر سیدہ زہرا برقعی نے کہا ہے کہ گزشتہ صدی میں حوزہ علمیہ قم کی ایک اہم اور نمایاں برکت خواتین کے دینی مدارس کی وسیع فعالیت ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں باایمان، عالمہ، باحجاب، بااخلاق اور باصلاحیت خواتین مختلف شعبوں میں جیسے تبلیغ، تدریس، تحقیق اور انتظامی امور میں قومی و بین الاقوامی سطح پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔

یہ بات انہوں نے حوزہ نیوز میں منعقدہ نشست "خواتین طلبہ؛ حوزہ علمیہ قم کا درخشاں مظہر" سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی کے بعد حوزہ علمیہ کی کامیابیوں کو سمجھنے کے لیے اس کی تاریخی بنیادوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

انہوں نے بیان کیا کہ صدر اسلام میں پیغمبر اکرم (ص) کا خواتین کے حوالے سے رویہ نہایت تمدنی اور بلند تھا۔ حضرت خدیجہ (س) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) اس دور کی ممتاز عالمات اور بااثر خواتین میں شامل تھیں۔ اسماء بنت عمیس اور نصیبه جیسی خواتین بھی علمی میدان میں نمایاں رہیں۔

برقعی نے مزید کہا کہ رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد خواتین کو علمی میدانوں سے دور کیا گیا، تاہم بعض خواتین نے ذاتی کوششوں اور موزوں حالات میں علمی ترقی حاصل کی، لیکن ان کی تعداد محدود تھی۔

انہوں نے کہا کہ طاغوتی دور میں عورت کو اشتہارات اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جبکہ انقلاب اسلامی کے بعد امام خمینی (رح) نے خواتین کو اسلامی تمدن کا اہم حصہ قرار دیا۔ امام (رح) خواتین کو انقلاب کی کامیابی میں مردوں سے زیادہ مؤثر قرار دیتے تھے۔

برقعی نے کہا کہ انقلاب کے بعد خواتین کے دینی مدارس کی ترقی ایک قابل تحسین امر ہے۔ قبل از انقلاب چند نجی ادارے ہی فعال تھے، لیکن ان پر سرکاری دباؤ تھا۔ اب یہ ادارے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ دنیا بھر میں فعال ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج جامعہ الزہرا (س) کی فارغ التحصیل خواتین دنیا کے مختلف ممالک میں دینی مدارس کی تدریس و انتظام سنبھال رہی ہیں۔ پاکستان کی ایک رکن اسمبلی اور تھائی لینڈ کی بعض جامعات میں اساتذہ کا تعلق اسی ادارے سے ہے۔ ایران میں بھی یہ خواتین علمی اور انتظامی شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ رہبر معظم انقلاب کے ارشادات کی روشنی میں، جامعہ الزہرا (س) کے لیے پانچ سالہ منصوبہ بندی کی گئی ہے، اور "بیانیہ گام دوم" کے طرز پر ایک جامع بیانیہ بھی مرتب کیا گیا ہے، جس میں تمام ذیربط افراد جیسے طلاب، اساتذہ اور پالیسی سازوں کی ذمہ داریاں واضح کی گئی ہیں۔

سیدہ زہرا برقعی نے کہا کہ یہ بیانیہ رہبر معظم کے نظریات پر مبنی ہے اور جامعہ الزہرا (س) کے تعارف، موجودہ دستاوردوں اور مستقبل کی سمتوں کو واضح کرتا ہے۔ اس میں طلاب کے لیے معاشرتی کردار بھی متعین کیا گیا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ دینی حوزات کو معاشرتی تبدیلی کے عمل میں تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا بلکہ اس میں حکومت، پالیسی ساز ادارے اور علمی حلقوں کو بھی شامل ہونا چاہیے۔ جامعہ الزہرا (س) کو عوام اور نظام کے درمیان رابطے کے پل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

برقعی نے آخر میں کہا کہ اگر نظام تعلیم میں حقیقی تبدیلی مطلوب ہے تو پالیسی سازوں کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ قوانین اور دستاویزات تو بہت ہیں لیکن اصل مسئلہ ان پر عمل درآمد کا ہے۔

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ حکومتی ادارے اور منتظمین اپنی ضروریات جامعہ الزہرا (س) سے شیئر کریں تاکہ تحقیق اور علمی تجزیے کے ذریعے عملی راہ کار فراہم کیے جا سکیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha