حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم کی جدید تاسیس کے سو سال مکمل ہونے پر عالمی پیمانے پر منعقد ہونے والے کانفرنس میں خصوصی شرکت کے لئے ہندوستان سے تشریف لائے مجلس علمائے ہند کے سربثحجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید کلب جواد نقوی سے حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار نے ایک انٹرویو کیا ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال:
حوزہ علمیہ قم کی جدید تاسیس کے سو سال مکمل ہونے پر منعقدہ عظیم الشان کانفرنس میں آپ کی شرکت کا احساس کیسا ہے؟ اور آپ حوزہ علمیہ قم کی خدمات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ! حوزہ علمیہ قم کی جدید تاسیس کو سو سال مکمل ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر منعقدہ عظیم الشان عالمی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا، جس میں دنیا بھر سے علمائے کرام شریک ہیں۔
اگر ہم قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں دیکھیں تو علم کی جو اہمیت بیان ہوئی ہے، اسے عملی جامہ حوزہ علمیہ قم نے پہنایا ہے۔ یہاں آکر یہ احساس ہوتا ہے کہ علم اہل بیت علیہم السلام کی ترویج کے لئے کیسی محنتیں اور مشقتیں کی گئی ہیں۔
یہاں کا روحانی ماحول انسان کو خودبخود یہ سمجھاتا ہے کہ علماء کی کیا اہمیت اور مقام ہے۔
سوال:
حوزہ علمیہ قم کی نمایاں خصوصیات میں آپ کن نکات کو سب سے اہم سمجھتے ہیں؟
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں علمی نظام میں زبردست ترقی ہوئی ہے۔
حوزہ علمیہ نجف اشرف کی اپنی عظمت ہے، لیکن قم میں دینی تبلیغ کا دائرہ پوری دنیا تک پھیل گیا ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ یہاں خواتین کے لیے دینی تعلیم کا منظم اور وسیع انتظام موجود ہے۔ ہزاروں خواتین یہاں تعلیم حاصل کر چکی ہیں اور دنیا بھر میں علم و ہدایت پھیلا رہی ہیں، جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
اسی طرح آج بہترین طالب علم حوزہ علمیہ میں آتے ہیں۔ پہلے جو طلبہ دنیوی تعلیم میں ناکام ہو جاتے تھے، وہ دینی تعلیم کی طرف آتے تھے، لیکن اب صورت حال بالکل برعکس ہے۔ خود میرا اور میرے بھائی کا بھی یہی تجربہ ہے کہ ہم نے اعلیٰ دنیوی تعلیم ترک کر کے حوزہ علمیہ قم کا رخ کیا۔
سوال:
کیا حوزہ علمیہ لکھنؤ کے دوبارہ احیاء اور مرکزیت کے لیے کوئی مشورہ دینا چاہیں گے؟
جی ہاں!
ہندوستان میں جب شیعہ حکومتیں تھیں، تب دینی تعلیم کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ مدارس میں کھانے، وظیفے اور بنیادی اخراجات کے لیے بھی مشکلات ہیں۔
اس لیے عوام کو چاہیے کہ جیسے مجالس اور دینی تقریبات میں خرچ کرتے ہیں، ویسے ہی مدارس اور دینی تعلیمی اداروں پر بھی خرچ کریں۔ عوام کی توجہ اور تعاون سے ہی حوزہ علمیہ لکھنؤ دوبارہ اپنے ماضی کی عظمت حاصل کر سکتا ہے۔
سوال:
موجودہ حالات میں شیعہ مسلمانوں کو اپنے فرائض کیسے ادا کرنے چاہئیں؟
سب سے ضروری بات یہ ہے کہ تحمل، صبر اور حکمت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
مخالفین کی یہی کوشش ہے کہ ہم اشتعال میں آ کر کوئی ایسا قدم اٹھائیں، جس سے انہیں ظلم کرنے کا بہانہ مل جائے۔ ہمیں قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی جدوجہد کرنی چاہیے۔
اس کی مثال گاندھی جی کی تحریک آزادی سے بھی ملتی ہے، جہاں بغیر ہتھیار کے سب سے بڑی حکومت کو شکست دی گئی تھی۔
اسی حکمت عملی کو اختیار کر کے ہم موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کامیابی سے کر سکتے ہیں۔
حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا کلب جواد نقوی نے اپنی گفتگو کے آخر میں زور دیا کہ حوزہ علمیہ قم کی برکات، خصوصاً حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی معنوی سرپرستی، حوزہ کی ترقی کا راز ہیں۔ انہوں نے دعا کی کہ حوزہ علمیہ قم ہمیشہ علم و ہدایت کا مرکز بنا رہے اور دنیا بھر میں مکتبِ اہل بیت علیہم السلام کی اشاعت کا ذریعہ بنتا رہے۔
واضح رہے کہ یہ عظیم الشان علمی اور حوزوی کانفرنس 7 اور 8 مئی 2025 کو مدرسہ امام موسی کاظم علیہ السلام قم میں منعقد ہوگی، جس میں دنیا بھر سے علمائے کرام، دینی اسکالرز اور حوزوی شخصیات شریک ہوں گی۔









آپ کا تبصرہ