حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپایگانیؒ نے محدث جلیلالقدر، ثقة الاسلام شیخ کلینیؒ کی علمی خدمات اور ان کے معروف حدیثی مجموعہ "الکافی" کے حوالے سے اپنے ایک یادداشتی بیان میں ان کی علمی عظمت، گرانقدر خدمات اور علمائے اسلام کی ان سے عقیدت پر روشنی ڈالی ہے۔
آیت اللہ صافیؒ نے کہا کہ حدیث، اس کے راویوں اور محدثین کی اہمیت بیان کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ دین کی بنیادیں انہی احادیث پر قائم ہیں۔ اسلامی علوم، اصول دین، فروع دین اور الہیات سب کچھ احادیث میں محفوظ ہے، اور یہ تمام تر خزانہ محدثین کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ لہٰذا ان عظیم شخصیات کا تعارف، ان کی خدمات کی تبیین اور ان کے مقام کا اعتراف نہ صرف دینی فریضہ ہے بلکہ دین کی بنیادوں کو مضبوط بنانے میں مؤثر ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ اگر کلینیؒ جیسے بزرگ محدث اور ان کی تحریر کردہ کتابیں، خصوصاً "الکافی" جیسی کتب نہ ہوتیں تو دین کی حقیقتوں کو سمجھنا اور ان سے استنباط کرنا بہت مشکل ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ "الکافی" میں صرف احادیث جمع کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ شیخ کلینیؒ کی گہری بصیرت، دینی فہم اور علمی عمق کا مظہر ہے۔
آیت اللہ صافیؒ نے "الکافی" کی ترتیب اور اس میں شامل مضامین کی ساخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ترتیب عام ذہن کا نتیجہ نہیں بلکہ یا تو الہامی ہے یا کلینیؒ کی بلند فکری کا نتیجہ۔ "عقل و جہل" سے آغاز اور پھر علم، توحید اور دیگر موضوعات کی درجہ بندی اس بات کی علامت ہے کہ وہ محض محدث نہ تھے بلکہ بلند پایہ متکلم و فقیہ بھی تھے۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ "الکافی" میں درج احادیث کے اسناد کی تحقیق ضروری ہے، تاہم بعض روایات کی سند اگر ضعیف ہو بھی، تو اس سے کتاب کی مجموعی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ شیخ کلینیؒ نے روایات کو معتبر و معروف مصادر سے لیا اور نقل کرنے کے وقت سند کے ساتھ ذکر کیا، جو اس زمانے کا مسلمہ طریقہ تھا۔
آیت اللہ صافیؒ نے علمائے اہل سنت کی شیخ کلینیؒ سے عقیدت کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ جب وہ کاظمین میں شیخ کلینیؒ کے مزار کی زیارت کے لیے گئے اور ایک سنی استاد سے قبر کا پتہ پوچھا، تو انہوں نے کہا: "کلینی صرف تمہارے نہیں، ہمارے بھی ہیں"۔
شیخ کلینیؒ کی کتاب "الکافی" صحاح ستہ سے بھی قدیم ہے اور اس میں موجود روایات کی تعداد تقریباً سترہ ہزار ہے۔ انہوں نے بیس سے تئیس سال کی مسلسل علمی جدوجہد کے بعد یہ کتاب مکمل کی۔ آیت اللہ صافیؒ نے دعا کی کہ خداوند عالم شیخ کلینیؒ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔
آخر میں آیت اللہ صافیؒ نے اس بات پر زور دیا کہ حوزہ ہائے علمیہ کو چاہیے کہ وہ حدیث اور حدیثی علوم پر مزید توجہ دیں، جیسا کہ آیت اللہ بروجردیؒ کے زمانے میں رائج ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کلینی، صدوق اور مجلسی جیسے محدثین کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان کی راہوں پر چلنا چاہیے۔
شیخ کلینیؒ کی ایک نایاب کتاب "ما قیل فی الائمہ من الشعر" کا بھی ذکر آیا، جس کے بارے میں آیت اللہ صافیؒ نے شدید خواہش کا اظہار کیا کہ اگر یہ کتاب دستیاب ہو جائے تو یہ اہل بیت علیہم السلام کی ادبی و شعری تاریخ کے حوالے سے قیمتی سرمایہ ثابت ہوگی۔
یہ جامع اور محققانہ بیان اس بات کی روشن دلیل ہے کہ شیخ کلینیؒ کی خدمات صرف ماضی کی تاریخ نہیں، بلکہ آج بھی دینی علوم اور حوزاتِ علمیہ کے لیے ایک عظیم نمونہ ہیں۔









آپ کا تبصرہ