حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رکن مجلس خبرگان رہبری اور مجمع تشخیص مصلحت نظام کے رکن، آیت اللہ محسن اراکی نے کہا ہے کہ آج حوزہ علمیہ قم ہزاروں علماء کی تربیت کر رہا ہے اور علم کو جنم دینے والی شخصیات کے ساتھ دنیا بھر کے مسائل میں اپنا مؤثر کردار ادا کر رہا ہے، حوزہ آج مشکلات کو آسان کرنے اور مسئلے کو حل کرنے والا ادارہ بن چکا ہے۔
انہوں نے حوزہ علمیہ قم کی سو سالہ تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حوزہ کو تین زاویوں سے دیکھنا ضروری ہے: تشکیل و ترقی، سیاسی فعالیت اور علمی کارکردگی۔ ان کے بقول، اگرچہ حاج شیخ عبدالکریم حائری نے سو سال قبل اسے دوبارہ منظم کیا، لیکن حوزہ قم کی بنیادیں پہلے صدی ہجری میں رکھی جاچکی تھیں جب شیعہ علما اور محدثین کوفہ اور ایران کے دوسرے شہروں سے قم ہجرت کر آئے تھے۔
آیت اللہ اراکی نے واضح کیا کہ قم کے محدثین کا طریقہ بغداد اور ری کے علما سے مختلف تھا؛ یہاں حدیث کی قبولیت میں سختی برتی جاتی تھی۔ حوزہ قم کے قدیمی پس منظر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قاجار اور ابتدائی پہلوی دور میں قم میں حوزہ کی سرگرمیاں محدود تھیں کیونکہ شاہی حکومتیں مذہبی مراکز کو طاقتور نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حاج شیخ عبدالکریم حائری کی آمد اور ابتدائی پہلوی حکومت کی کمزوری نے حوزہ قم کو دوبارہ زندگی بخشی۔ حاج شیخ کی ساکھ اتنی مضبوط تھی کہ حکومت ان کے احترام میں کئی فیصلے روک دیتی تھی۔ ان کا نرم مگر مدبرانہ رویہ حوزہ کے استحکام اور طلاب کی حفاظت کا باعث بنا۔
آیت اللہ اراکی نے کہا کہ مرحوم حاج شیخ عبدالکریم کے بعد مراجع ثلاثہ یعنی آیات حجت، خوانساری اور صدر کے زمانے میں حوزہ علمی اور مالی طور پر مستحکم ہوا۔ اس دور میں علمائے کرام اور طلاب کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا اور معاشرتی رابطے مضبوط ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ مدرسہ فیضیہ میں سخت حکومتی دباؤ کے باوجود علم کا سلسلہ جاری رہا، لیکن بعد میں رضاشاہ کے تبعید اور محمدرضا کے کمزور دور میں حوزہ کو وسعت ملی۔
انہوں نے کہا کہ آیت اللہ بروجردی کے قم آنے اور ان کے دور میں حوزہ نے علمی اور تبلیغی میدانوں میں شاندار ترقی کی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بنیاد پر قیام کیا، اور علماء کی اس مضبوط نیٹ ورک نے انقلاب اسلامی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
آیت اللہ اراکی نے زور دے کر کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے حوزہ علمیہ قم کو عالمی سطح پر دینی، علمی اور سیاسی مرکز میں بدل دیا۔ فقہ و اصول کے دائرے سے نکل کر کلام، تفسیر اور فلسفہ جیسے شعبوں میں ترقی نے حوزہ کو جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کیا۔
انہوں نے کہا کہ آج حوزہ علمیہ قم دنیا کے جدید علمی مباحث میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قانون اساسی جیسی عظیم دستاویز کی تدوین حوزہ کی علمی گہرائی کا نتیجہ ہے۔ ان کے مطابق یہ قانون نہ صرف ایران بلکہ شام اور لبنان جیسے ملکوں میں بھی ایک مضبوط ماڈل کے طور پر اثرانداز ہو رہا ہے۔
آیت اللہ اراکی نے کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے نظام اسلامی کی بنیاد رکھی اور آج کی قیادت اسے استقامت کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہے۔ ان کے بقول، ایک نظام کو قائم کرنا جتنا مشکل ہے، اسے برقرار رکھنا اس سے کہیں زیادہ دشوار عمل ہے۔









آپ کا تبصرہ