حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا منظور علی نقوی امروہوی نے حرم مطہر حضرت معصومہ قم کے ابو طالب ہال میں شب وفات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے منعقدہ مجلسِ عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت ایک عظیم سعادت ہے۔
انہوں نے سورۂ حدید، آیت 9:"هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ"ترجمہ: "وہی اللہ ہے جو اپنے بندے پر روشن آیات نازل کرتا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے۔ کے ذیل میں کہا کہ اس آیت کا مصداق صرف انبیاء اور اوصیاء ہی نہیں، بلکہ وہ عظیم ہستیاں بھی ہیں جو درِ اہل بیت سے وابستہ رہیں اور اپنی حیات کو نورِ الٰہی کے لیے وقف کر دیں۔ انہی انوارِ ہدایت میں سے ایک درخشاں نام کریمۂ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا ہے۔ آپ نے اپنی عفت، طہارت اور ولایت کی اطاعت کے ذریعے امت کو ظلمت سے نکال کر نور کی راہ دکھائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حضرت معصومہ (س) نے بچپن ہی سے قرآن و اہل بیت کے نور میں تربیت پائی۔ والد کی وفات کے بعد اٹھارہ برس تک بھائی امام رضا علیہ السلام کے سائے میں رہ کر دین و معرفت کا سرمایہ جمع کیا۔ جب امام رضا علیہ السلام ایران کی طرف گئے تو آپ نے بھی نورِ ولایت کے شوق میں مدینہ سے سفر اختیار کیا۔ یہ صرف بہن کا بھائی سے ملنے کا سفر نہ تھا، بلکہ یہ سفر نورِ ہدایت کو عالمگیر کرنے کا سفر تھا۔
انہوں نے کہا کہ حضرت معصومہ (س) کا وصال قم میں ہوا۔ صرف سترہ دن کے قیام میں بھی آپ نے ایسی طہارت و حجاب کی مثال قائم کی کہ آج صدیوں بعد بھی عورتوں کے لیے درسِ عفت ہیں۔ یہی "اخراج من الظلمات الی النور" ہے کہ ایک بیٹی اپنی پاکدامنی سے نسلوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے آئی۔
مولانا منظور علی نقوی نے کہا کہ حضرت معصومہ (س) کی زیارت ایک عظیم سعادت ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "قم میں ہماری ایک دختر دفن ہو گی جس کی زیارت کرنے والا بہشت کا حقدار ہو گا۔" اور خود زیارتنامہ میں ہم یہ جملہ پڑھتے ہیں:"يا فاطمة اشفعي لي في الجنة، فإن لك عند الله شأناً من الشأن""اے فاطمہ! میرے لیے جنت میں شفاعت فرمائیے، بے شک اللہ کے نزدیک آپ کا بلند مقام ہے۔"یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اللہ نے بی بی کو نہ صرف دنیا میں عفت و طہارت کی نشانی بنایا بلکہ آخرت میں مومنین کی نجات کا وسیلہ بھی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ مگر یہ سفر آسان نہ تھا۔ راستے کی سختیوں اور دشمنوں کے مظالم نے بی بی کو بیمار کر دیا۔ قم میں غربت و پردیسی کے عالم میں سترہ دن بیماری میں گزارے۔ نہ بھائی قریب تھے، نہ باپ کا سایہ تھا۔ دل تڑپتا رہا ہوگا کہ کاش ایک بار بھائی کی زیارت نصیب ہو جاتی۔ آخرکار غریب الوطنی میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔
مولانا منظور نقوی نے کہا کہ بیٹیوں کو چاہیے کہ وہ حضرت معصومہ (س) کو اسوہ بنائیں؛ اپنے حجاب کو اپنی عزت کا تاج بنائیں، اپنی عفت کو اپنی عظمت کا سرمایہ سمجھیں۔ جب ایک بیٹی عفت و حیا کے نور سے مزین ہوتی ہے تو وہ نہ صرف اپنے گھر کو، بلکہ پورے معاشرے کو ظلمت سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی قرآن کا پیغام ہے اور یہی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا سبق ہے۔









آپ کا تبصرہ