جمعہ 3 اکتوبر 2025 - 17:44
حضرت معصومہؑ کا طلبہ پر مادری سایہ

حوزہ/ علوم دینیہ کی تمام کتابوں کے بیچ، جب زندگی کے غموں کا بوجھ طلبہ کے کندھوں پر بھاری ہو جاتا ہے، تو ان کا واحد سہارا وہ بارگاہ ہے جہاں ایک ایسی بانو ہیں جو ٹوٹے دلوں سے انس رکھتی ہیں۔ حضرت معصومہؑ طلبہ کے لیے صرف ایک زیارت گاہ نہیں بلکہ ماں ہیں، جو ان کے آنسو خرید لیتی ہیں اور محبت سے ان کے سر پر ہاتھ رکھتی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی I قم ایک ایسا نگینہ ہے جو ہم طلبۂ علومِ دینیہ کے لیے بے حد قیمتی ہے۔ یہ ہمارے لیے پناہ اور سہارا ہے۔ چاہے کوئی طالب علم کسی شہر یا کسی بھی ملک کا ہو اور وہاں تعلیم حاصل کر رہا ہو، اس کا دل پھر بھی قم کے لیے دھڑکتا ہے۔ جب دل کی اداسی اور مشکلات کا بوجھ بڑھ جاتا ہے تو فقہ، احکامِ حج، طہارت، منطق اور فلسفے کی باتیں سمجھ نہیں آتیں؛ دل چاہتا ہے کسی ماں جیسی ہستی کی طرف بھاگ کر جائے۔

ایسے میں دل چاہتا ہے کوئی محبت سے سر پر ہاتھ پھیرے اور وہی نقرئی جالیوں والے پنجرے تھام لے، جنہیں کبھی علامہ طباطبائیؒ، آیت اللہ جوادی آملی اور دیگر بزرگوں نے تھاما تھا، تاکہ دل کو تسلی ملے اور غموں کا بوجھ ہلکا ہو۔

جب ہم طلبہ مالی مشکلات میں گلے تک ڈوبے ہوتے ہیں اور کبھی گھر والوں کے سامنے شرمندہ ہو جاتے ہیں تو دل صرف ایک جگہ چاہتا ہے "قم کا حرمِ حضرت معصومہؑ "وہ دل ٹوٹنے والوں کی پناہ ہیں، طلبہ کے درد کو سمجھتی ہیں۔ وہ شادی شدہ نہ تھیں، مگر ہمارے لیے ماں ہیں؛ ایسی ماں کہ جسے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی، ہماری آنکھوں سے ہی ہمارے دل کا حال جان لیتی ہیں اور دل کو سکون دیتی ہیں۔

ہم وہ بچے ہیں جو پندرہ سال کی عمر سے ہی اپنے گھروں سے نکل کر آئے ہیں اور دل خوش ہے کہ ہم اس امام کے سپاہی ہیں جس کی پھوپھی حضرت معصومہؑ ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ انہی کے وسیلے سے امامؑ ہم پر نظر رکھتے ہیں۔ بعض اوقات ہمیں امامِ زمانہؑ سے مانگنے میں حیا آتی ہے تو ہم اپنی ماں حضرت معصومہؑ کو واسطہ بناتے ہیں۔

حضرت معصومہؑ نے اپنے بھائی کا دیدار نہ کیا اور فراق و ہجران کی حالت میں دنیا سے گئیں۔ اسی لیے وہ ہمارے دل کی تنہائی اور اداسی کو بھی سمجھتی ہیں۔ جب کوئی طالب علم تنہائی سے تھک جائے اور ایک ہم سفر چاہے تو وہ ماں کے در پر آتا ہے، جو طلبہ کو جانتی ہیں اور ان کے ساتھ مانوس ہیں، تاکہ اس کی زندگی کے سفر میں شریکِ حیات کے لیے دعا کرے۔

جب ہمارا دل بوجھل ہو جائے تو ہم فوراً قم کا ٹکٹ لیتے ہیں اور مسجدِ اعظم پہنچ کر سانس لیتے ہیں۔ وہاں کبھی امام خمینیؒ پڑھاتے تھے، کبھی آیت اللہ بروجردیؒ کا درس ہوتا تھا۔ ہم انہی کی خوشبو کو سانسوں میں سمیٹتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ نگینِ قم کی طرف بڑھتے ہیں۔ دل ہی دل میں کہتے ہیں: "میں اپنے دل کے آنسو بیچنے آیا ہوں، جو کوئی نہیں خریدتا مگر آپ۔"

وہ ہمارے سارے غم خرید لیتی ہیں۔ ہم اشکوں کا سودا کر کے دل ہلکا کر لیتے ہیں۔ وہ ماں جیسی ہستی ہمارے سر پر ہاتھ رکھتی ہیں اور دل کو سکون دیتی ہیں۔

ہمارے لیے حضرت معصومہؑ سب کچھ ہیں۔ وہ واقعی ہمارے لیے ماں ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha