حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد ناصری دولتآبادی اپنے والد مرحوم آیت اللہ شیخ محمدباقر ناصری سے نقل کرتے ہیں کہ: سنہ ۱۲۹۵ ہجری قمری میں اطرافِ قم میں سخت قحط پڑا، یہاں تک کہ لوگ بے بس ہوگئے۔ چنانچہ انہوں نے چالیس متدین افراد کو قم بھیجا تاکہ وہ حرم حضرت معصومہ سلاماللہعلیہا میں اس قحطی سے نجات کے لئے متوسل ہوں۔
یہ افراد تین شب و روز حرم میں دعا و توسل میں مصروف رہے۔ تیسرے دن کی رات، ان میں سے ایک نے خواب میں مرحوم میرزا قمی کو دیکھا۔ میرزا نے پوچھا: "یہاں کیوں بیٹھے ہو؟" اس نے عرض کی: "ایک مدت سے بارش نہیں ہوئی، خشکسالی اور قحط نے ہمیں گھیر لیا ہے، اس مشکل کے رفع ہونے کے لیے یہاں پناہ لی ہے۔"
میرزا قمی نے کہا: "اگر تمہاری حاجت بارش اور دنیوی امور کی ہے تو یہ تو ہم بھی خدا سے دلا سکتے ہیں، ان جیسی حوائج کے لیے ہمارے پاس آؤ۔ ہاں اگر آخرت کی شفاعت چاہتے ہو تو تمہیں اس شفیعہ یومالجزا، حضرت فاطمہ معصومہ سلاماللہعلیہا کا دامن تھامنا چاہیے۔"
یہ واقعہ نہ صرف اہل بیت علیہم السلام کی کرامت و منزلت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ توسل (دنیاوی حاجات کے لیے وسیلہ) اور شفاعت (آخرت کے لیے بلند مقام) کے درمیان فرق کو بھی خوبصورت انداز میں واضح کرتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ میرزا ابو القاسم بن محمد حسن شفتی قمی (1150۔1231 ھ) میرزائے قمی کے نام سے معروف، بارہویں اور تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں۔ "فاضل قمی و محقق قمی" ان کے مشہور القاب میں سے ہیں جو علماء کے درمیان ان کے بلند مرتبہ کے حاکی ہیں۔ آپ کے والد ایک فاضل و جامع کمالات عالم دین و عابد و زاہد تھے۔ جنہیں ملا حسن یا آخوند ملا حسن کہا جاتا تھا۔
نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے علامہ وحید بہبہانی کے بعد ایک خاص اصولی مدرسہ کی تاسیس کی تھی۔ علمی اعتبار سے وہ اس قدر قوی تھے کہ کربلا کے بزرگ فقیہ سید علی طباطبایی صاحب ریاض المسائل و ملا علی نوری جیسے حکیم علماء سے علمی مباحثہ و مکاتبہ کیا کرتے تھے۔ علم رجال، علم کلام و حکمت و تاریخ و حدیث تبحر کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت ایک فقیہ کے طور پر تھی۔ ان کی کتاب قوانین الاصول علماء کے درمیان مقبولیت کی حامل تھی۔ تدریس و تحقیق کے علاوہ اس پر شروح و حواشی بھی لکھے گئے ہیں۔ سنہ 1231 ھ میں آپ نے شہر قم میں وفات پائی اور قبرستان شیخان، قم میں دفن ہیں۔









آپ کا تبصرہ