پیر 15 ستمبر 2025 - 11:45
حرم اہل بیتؑ میں کریمہ اہل بیتؑ کی آمد

حوزہ/ شب معراج رسول اللہ (ص) سفر معراج پر رواں دواں تھے کہ راستے میں آپ کی نظر زمین کے ایک حصے پر پڑی جہاں شیطان لوگوں کو صراط مستقیم سے بہکا رہا تھا تو آپ نے جناب جبرئیل (ع) سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہاں کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ آپ کے اہل بیتؑ سے محبت کرنے والوں کا مرکز ہے اور یہ شیطان ہے جو ان کو بہکانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ حضور نے بے ساختہ شیطان سے فرمایا: "قم" یعنی اٹھ جا! چلا جا! آب وحی سے دھلی ہوئی زبان پیغمبر سے نکلا ہوا لفظ "قم" اس شہر کا نام قرار پایا اور یہی شہر قم کی وجہ تسمیہ ہے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی| شب معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر معراج پر رواں دواں تھے کہ راستے میں آپ کی نظر زمین کے ایک حصے پر پڑی جہاں شیطان لوگوں کو صراط مستقیم سے بہکا رہا تھا تو آپ نے جناب جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہاں کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ آپ کے اہل بیتؑ سے محبت کرنے والوں کا مرکز ہے اور یہ شیطان ہے جو ان کو بہکانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ حضور نے بے ساختہ شیطان سے فرمایا: "قم" یعنی اٹھ جا، چلا جا۔ آب وحی سے دھلی ہوئی زبان پیغمبر سے نکلا ہوا لفظ "قم" اس شہر کا نام قرار پایا اور یہی شہر قم کی وجہ تسمیہ ہے۔

قم پہلی صدی ہجری سے شیعہ نشین شہر رہا ہے، یہاں آل محمد علیہم السلام کے شیعہ رہتے آئے ہیں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی خاص نظر کرم اس شہر اور یہاں کے رہنے والوں پر رہی ہے۔‌ جیسا کہ صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرمایا: "قم ہم اہل بیتؑ کا حرم ہے۔"

کریمہ اہل بیتؑ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت باسعادت سے برسوں پہلے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "میری نسل سے ایک خاتون جنکا نام فاطمہ بنت موسی ہوگا، وہ قم میں رحلت فرمائیں گی اور ان کی شفاعت سے تمام شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔"

یہ وہی بی بی ہیں جن کے سلسلہ میں ان کے والد یعنی وصی رسول حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا: "ان کا باپ ان پر فدا ہو جائے۔"

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: "بہشت کے 8 دروازے ہیں، جن میں سے ایک دروازہ اہل قم کے لئے کھلتا ہے۔"

بے شک شہر قم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی آمد سے قبل بھی محترم اور مکرم تھا لیکن اس کو وہ عظمت اور رونق حاصل نہ تھی جو آپ کے پُر خیر و برکت وجود سے حاصل ہوئی۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی آمد سے اس شہر کو دینی، مذہبی، روحانی، علمی، ثقافتی، سیاسی اور اجتماعی بلکہ ہر جہت سے قابل قدر امتیاز حاصل ہوا کہ آج یہ شہر، شہر علم و اجتہاد اور شہر انقلاب ہے۔ اگرچہ جغرافیائی لحاظ سے یہ شہر بہت بڑا نہیں ہے لیکن محل دین اور مرکز مذہب ہے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا 23 ربیع الاول سن 201 ہجری کو قم تشریف لائیں اور یہاں اپنی بابرکت اور پاکیزہ زندگی کے صرف 17 دن بسر کر کے 10 ربیع الثانی کو شہید ہو گئیں اور یہیں دفن ہوئیں۔ لیکن آپ کے وجود مبارک اور روضہ مطہر کے سبب اس شہر کو قابل قدر امتیازات حاصل ہوئے۔ جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

1. امام زادگان کی آمد: حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک کے سبب یہاں امام زادگان کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس نے محبت اہل بیت علیہم السلام میں چار چاند لگائے۔

2. توجہ کا مرکز: حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک کے سبب بادشاہوں اور مومنین کی توجہ کا مرکز بنا کہ دیگر شہروں بلکہ دیگر ممالک کے مومنین یہاں بسنے لگے۔

3. مذہب تشیع کو استحکام: حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر مبارک کی برکتوں سے یہاں علماء، فقہاء، محدثین وغیرہ کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جس سے مذہب کو استحکام حاصل ہوا۔ ان عظیم علماء میں سے چند کے اسماء مندجہ ذیل ہیں۔ شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ کے والد جناب علی بن حسین بن بابویه قمی رحمۃ اللہ علیہ اور خود شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ، امام حسن عسکری علیہ السلام کے خاص صحابی جناب محمد بن حسن صفار رضوان اللہ تعالی علیہ، امام حسن عسکری علیہ السلام کے وکیل اور مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام تعمیر کرانے والے جناب احمد بن اسحاق قمی رحمۃ اللہ علیہ، عظیم شیعہ محدث جناب احمد بن ادریس قمی رحمۃ اللہ علیہ، امام علی رضا علیہ السلام کے صحابی جناب زکریا ابن آدم رضوان اللہ تعالی علیہ، عظیم شیعہ عالم، ادیب اور محدث جناب ابوعبدالله محمد بن خالد برقی رحمۃ اللہ علیہ، عظیم معروف مفسر جناب علی ابن ابراہیم قمی رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ نصیر الدین طوسی رحمۃ االلہ علیہ، صدر المتالهین شیرازی رحمۃ اللہ علیہ، مؤلف جامع السعادات جناب حاج ملا مہدی قمی نراقی رحمۃ اللہ علیہ اور میرزا ابوالقاسم قمی المعروف بہ میرزای قمی رحمۃ اللہ علیہ۔ اس کے علاوہ علماء، فقہاء، ادباء، شعراء وغیرہ کے نام کثیر تعداد میں موجود ہیں۔

4. حوزہ علمیہ قم: تیسری صدی ہجری کی ابتدا سے یہاں حوزہ علمیہ قائم ہے، البتہ درمیان میں کچھ وجوہات کے سبب حوزہ علمیہ میں رونق کم ہوئی تو آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ دوبارہ اس کی رونق کو واپس لائے کہ آج الحمدللہ ولہ الشکر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے وجود مبارک کی برکتوں سے یہ شہر علماء، فقہاء، محدثین، متکلمین، مفسرین وغیرہ کا مرکز ہے۔ نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے دیگر 100 سے زیادہ ممالک کے تشنگان علوم اہل بیت علیہم السلام یہاں سیراب ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا تھا: ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مشرق و مغرب دنیا میں علم قم سے نشر ہوگا، یہاں تک کہ یہ شہر دوسرے شہروں کے لئے نمونہ عمل ہوگا، زمین پر کوئی ایسا شخص نہ ہوگا کہ جس کو قم سے علمی اور دینی فائدہ حاصل نہ ہو، یہاں تک کہ ہمارے قائم کا ظہور ہو جائے گا۔ (بحارالانوار، جلد 60، صفحہ 213)

اگر ہم موجودہ دور میں مراجع کرام دامت برکاتہم کی تاریخ پڑھیں تو ہمارے لئے واضح ہوگا کہ ان بزرگان دین اور مدافعان مذہب نے یا تو حوزہ علمیہ قم سے بلا واسطہ علم حاصل کیا ہے یا باواسطہ حاصل کیا۔ یعنی کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے قدم مبارک کی برکتیں مرجع اعلیٰ دینی آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی دام، رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای دام ظلہ سمیت تمام مراجع کرام دام ظلہم کے شامل حال ہے، ان کے فتاوی اور بیانات سے پوری دنیا مستفید ہو رہی ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ شہر قم سے علم پوری دنیا میں نشر ہو رہا ہے۔

5. اسلامی انقلاب: حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک کی برکتوں میں سے ایک عظیم برکت اسلامی انقلاب ہے، جو رہبر کبیر انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ کی قیادت میں کامیاب ہوا اور رہبر انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای دام ظلہ کی قیادت میں اپنا کامیاب سفر طے کر رہا ہے۔

ان عظیم برکتوں کے تذکرے کے بعد شاید مناسب نہ ہو لیکن نہ لکھنا بھی احسان فراموشی ہوگی بلکہ کفر نعمت ہو گا کہ یہ چند سطریں جو ناچیز نے تحریر کی ہے یہ بھی کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے کرم خاص کے سبب ہے۔ وہی کرم خاص تھا کہ حقیر نے اپنی زندگی کے چند برس آپ کے جوار میں بسر کئے۔ اگرچہ کسی گنتی و شمار میں نہیں، لیکن جو کچھ بھی ہے سب اسی کریمہ کا کرم ہے۔

رسول اللہ، امیر المومنین، حضرت فاطمہ زہرا، حضرت خدیجۃ الکبری، امام حسن اور امام حسین علیہم الصلوۃ والسلام کی بیٹی آپ پر سلام ہو۔

ائے باب الحوائج امام موسی کاظم علیہ السلام کی دختر، سلطان عرب و عجم امام علی رضا علیہ السلام کی خواہر اور مولود مبارک حضرت جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام کی پھوپھی آپ پر سلام ہو۔

اے کریمہ! زیارت کرم فرمائیں اور شفاعت مرحمت فرمائیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha