جمعہ 3 اکتوبر 2025 - 20:31
حضرت فاطمه معصومه (س) کی زندگی اور سیرت

حوزہ/حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔ آپ کا اسمِ مبارک فاطمہ اور سب سے معروف لقب معصومہ ہے جو امام علی رضا علیہ السلام نے مرحمت فرمایا۔ شیعہ علماء آپ کو کریمہ اہلِ بیت کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں۔

تحریر: حافظ سید محمد اصغر جامعۃ المصطفیٰ کراچی

حوزہ نیوز ایجنسی|

حضرت فاطمه معصومه (س) کی زندگی اور سیرت

نام و نسب

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔ آپ کا اسمِ مبارک فاطمہ اور سب سے معروف لقب معصومہ ہے جو امام علی رضا علیہ السلام نے مرحمت فرمایا۔ شیعہ علما آپ کو کریمہ اہلِ بیت کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں۔

آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ والدہ ماجدہ کا نام نجمہ خاتون (اور بعض روایات کے مطابق خیزران) تھا۔ آپ نے صرف 28 برس کی عمر پائی۔

علمی مرتبہ و فضائل

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا علمی و روحانی اعتبار سے غیر معمولی مقام رکھتی تھیں۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے زیادہ بافضیلت قرار پائیں۔ آپ پاکدامنی، زہد اور علم و حکمت میں بلند درجہ رکھتی تھیں اور عالمہ غیر معلمہ کے لقب سے یاد کی جاتی ہیں۔

بچپن سے ہی آپ کو اپنے بھائی امام علی رضا علیہ السلام کی تربیت اور صحبت نصیب رہی، جس سے آپ نے علم و معرفت کے خزانے حاصل کیے۔

ایک مشہور واقعے کے مطابق، جب کچھ شیعیانِ اہلِ بیت سوالات لے کر مدینہ آئے اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سفر پر تھے، تو انہوں نے یہ سوالات حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام کی خدمت میں پیش کیے۔ آپ نے نہایت عمدہ اور مدلل جوابات تحریر فرمائے۔ بعد میں جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ان جوابات کو دیکھا تو مسکراتے ہوئے فرمایا: اَبُوها فِدَاہا (اس کے والد اس پر فدا ہوں)۔ یہ واقعہ آپ کی بلند علمی صلاحیت کا روشن ثبوت ہے۔

زیارت و شفاعت

آپ کی زیارت کے فضائل اہلِ بیت علیہم السلام سے منقول ہیں۔ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:مَنْ زَارَ الْمَعْصُومَةَ بِقُمَّ كَمَنْ زَارَنِی

یعنی ’’جو شخص قم میں حضرت معصومہ کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی۔‘‘

اسی طرح امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا:

’’جو میری پھوپھی کی زیارت کرے گا، وہ جنتیوں میں شمار ہوگا۔‘‘

امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی روایت ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی شفاعت سے ان کے تمام شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔ ان روایات کے مطابق آپ کی زیارت کا ثواب اور آپ کی شفاعت کا وعدہ غیر معمولی فضیلت رکھتا ہے۔

مدینہ سے قم تک کا سفر

امام علی رضا علیہ السلام کی جلاوطنی پر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو شدید غم لاحق ہوا، چنانچہ آپ بھی ایران کے سفر پر روانہ ہوئیں۔ راستے میں ساوہ کے مقام پر بیمار ہوگئیں اور فرمایا کہ مجھے قم لے جایا جائے۔ اہلِ قم کے بزرگ موسیٰ بن خزرج نے آپ کی اونٹنی کی لگام پکڑ کر آپ کو قم پہنچایا۔ آپ تقریباً 16 سے 17 دن انہی کے گھر قیام پذیر رہیں۔

نکاح نہ کرنا

روایات کے مطابق حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے نکاح نہیں کیا۔ اس بارے میں دو نظریات بیان کیے جاتے ہیں:

1.بعض روایات میں ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنی بیٹیوں کو نکاح نہ کرنے کی وصیت فرمائی تھی، لیکن محققین نے اسے کمزور روایت قرار دیا ہے۔

2.دوسرا نظریہ یہ ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے بلند علمی و روحانی مقام کے برابر کوئی ہمسر نہ تھا، اسی لیے آپ نے تجرد کی زندگی اختیار کی۔

وفات و تدفین

قم میں قیام کے دوران، 10 ربیع الثانی 201ھ کے قریب آپ کا وصال ہوا۔روایت ہے کہ تدفین کے وقت جب اختلاف ہوا کہ نمازِ جنازہ کون پڑھائے، تو دو نقاب پوش سواری پر آئے، نماز پڑھائی اور آپ کو قبر میں اتار کر غائب ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کرامتاً امام علی رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام تھے۔

بعد ازاں اہلِ قم نے آپ کے مزارِ اقدس پر عمارت تعمیر کی جسے باب النور کہا گیا۔

نتیجہ

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی سیرت پاکدامنی، علم، زہد اور اہلِ بیت سے وابستگی کا آئینہ ہے۔ آپ کی زیارت کو جنت اور شفاعت کی بشارتوں کے ساتھ خاص مقام عطا کیا گیا ہے۔ آپ کا نام تاریخ میں خواتینِ اہلِ بیت کی عظیم مثال کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha