جمعہ 21 نومبر 2025 - 14:39
جنگ نرم؛ سیرتِ فاطمی اور حکمتِ عملی

حوزہ/تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ وہ صرف اپنا روپ بدلتی ہیں۔ کبھی وہ تلواروں اور لشکروں سے لڑی جاتی ہیں اور کبھی افکار، نظریات اور بیانیوں سے۔ آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں، وہ مؤخر الذکر جنگ کا عروج ہے، جسے"نرم جنگ" (Soft War) یا نظریاتی جنگ کہا جاتا ہے۔

تحریر : مولانا صادق الوعد

حوزہ نیوز ایجنسی| تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ وہ صرف اپنا روپ بدلتی ہیں۔ کبھی وہ تلواروں اور لشکروں سے لڑی جاتی ہیں اور کبھی افکار، نظریات اور بیانیوں سے۔ آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں، وہ مؤخر الذکر جنگ کا عروج ہے، جسے"نرم جنگ" (Soft War) یا نظریاتی جنگ کہا جاتا ہے۔

اس جنگ کا میدانِ کار زار انسان کا دل و دماغ ہے اور اس کا مقصد زمین پر نہیں، بلکہ ذہنوں پر قبضہ کرنا ہے، لیکن یہ کوئی نیا کھیل نہیں۔ اس کا سب سے پہلا، منظم اور تباہ کن مظاہرہ آج سے چودہ صدیاں قبل سقیفہ بنی ساعدہ میں ہوا تھا۔ سقیفہ محض ایک سیاسی اختلاف یا حادثہ نہیں تھا، بلکہ اسلام کی تاریخ میں لڑی جانے والی پہلی اور کامیاب ترین نرم جنگ تھی، جس نے امت کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ آج کے جدید دور کے فتنوں، سازشوں اور پروپیگنڈے کو سمجھنے کے لیے سقیفہ کی نرم جنگی حکمت عملی کو سمجھنا ناگزیر ہے۔

سقیفہ کے منصوبہ سازوں نے حضرت علیؑ کے الٰہی حق خلافت (جس کا اعلان غدیر میں ہو چکا تھا) کو غصب کرنے کے لیے ایک کثیر الجہتی نرم جنگ کا آغاز کیا:

1. بیانیے کی جنگ: غدیر کے مقابلے میں اجماع کا نظریہ

سقیفہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ “واقعہ غدیر” تھا۔ حجۃ الوداع سے واپسی پر لاکھوں کے مجمع میں پیغمبر اکرم (ص) کا حضرت علیؑ کے ہاتھ کو بلند کرکے “مَن کُنتُ مَولاہ فھذا علی مَولاہ” کا اعلان کرنا، امامت و ولایت کا ایک ایسا ناقابل تردید ثبوت تھا جسے نظرانداز کرنا ناممکن تھا، لہٰذا سقیفہ کے منصوبہ سازوں کی پہلی نرم جنگی حکمت عملی بیانیے کی تبدیلی تھی۔ انہوں نے غدیر کے الٰہی فرمان کے مقابلے میں اجماعِ مسلمین کا ایک نیا بیانیہ متعارف کرایا۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ امت کا رہنما عوام کے اتفاق رائے سے منتخب ہونا چاہیے۔ بظاہر یہ ایک جمہوری اور دلکش نعرہ تھا، لیکن اس کی بنیاد غدیر کے واضح حکم سے انحراف پر رکھی گئی تھی۔ یہ نرم جنگ کا پہلا اصول ہے کہ ایک ناقابلِ تردید سچائی کا براہِ راست انکار کرنے کے بجائے، اس کے متوازی ایک متبادل، دلکش لیکن گمراہ کن بیانیہ کھڑا کر دو۔ آج عالمی استعمار اور اس کے مقامی ایجنٹ حقیقی اسلامی نظریات (جیسے عزت مسلمان، جہاد، ولایت فقیہ) کے مقابلے میں لبرل ازم، سیکولر ازم، و۔۔۔ کا مسخ شدہ بیانیہ پیش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں جعلی اکاؤنٹس اور پیجز دن رات شیعہ سنی فسادات کو ہوا دینے، مقدسات کی توہین پر مبنی مواد پھیلانے اور نوجوانوں کو دین اور اپنے تمدن اور نظریات سے بدظن کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ آج کا اجماع سازی کا ڈیجیٹل طریقہ ہے، ایک جھوٹ کو اتنی بار دہرایا جاتا ہے کہ وہ سچ لگنے لگتا ہے۔

2. مصنوعی اتفاقِ رائے

سقیفہ میں انصار اور مہاجرین کے درمیان جاری جھگڑے کے بعد جب خلافت پر قبضہ کر لیا گیا تو مدینہ کے عوام کو بیعت کے لیے مجبور کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے بنی اسلم قبیلے کا استعمال ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ قبیلہ غلے اور سامان کے لیے مدینہ آیا ہوا تھا۔ انہیں مفت راشن اور دیگر مراعات کا لالچ دے کر بیعت لینے پر مامور کیا گیا۔ انہوں نے مدینہ کی گلیوں میں گھوم کر لوگوں کو زبردستی خلیفہ اول کے پاس لا کر بیعت کروائی( تاریخ الطبری، ج 2، ص 459) یہ نرم جنگ میں پراکسی وار کی طاقت کے استعمال کی بہترین مثال ہے، جہاں دوسرے گروہوں کو لالچ یا دباؤ کے ذریعے استعمال کرتا ہے۔ آج یہی کام ٹویٹر ٹرینڈز اور بوٹ آرمیز (Bot Armies) کرتی ہیں۔ کسی بھی ملک یا نظریے کے خلاف ہزاروں خودکار اکاؤنٹس کے ذریعے ایک مصنوعی عوامی رائے بنائی جاتی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عوام کی آوازہے، حالانکہ اس کے پیچھے چند افراد اور ایک منظم پروپیگنڈا سیل ہوتا ہے یہی آج کے بنی اسلم ہیں۔

3. معاشی دباؤ

نرم جنگ میں معیشت ایک اہم ہتھیار ہے۔

سقیفہ والوں نے دو طرفہ معاشی حکمتِ عملی اپنائی: لالچ اور دباؤ

عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے سرکاری خزانے سے انصار و مہاجرین کی عورتوں میں کثرت سے مال تقسیم کیا گیا(یہ عجیب نکتہ ہے مردوں کو چھوڑ کر عورتوں میں مال کا تقسیم کرنا)

یہ دراصل حمایت خریدنے کا ایک طریقہ تھا۔ ایک انصاری خاتون کا یہ کہہ کر مال واپس کر دینا ،کہ کیا تم رشوت سے میرا دین خریدنا چاہتے ہو؟ اس حکمتِ عملی کا زندہ ثبوت ہے۔( تاریخ اسلام در آئینہ پژوہش، ج 3، ص 45)

اہل بیتؑ کی معاشی طاقت کو ختم کرنے کے لیے باغِ فدک پر قبضہ کر لیا گیا، جو کہ جناب سیدہ (س) کی ملکیت تھا اور جسے خود رسول اللہ (ص) نے بحکمِ خدا "وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ” (سورہ اسراء: 26) کے تحت عطا فرمایا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ، بنی ہاشم کو خمس کی ادائیگی سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اس کا مقصد حضرت علیؑ کو معاشی طور پر کمزور کرنا تھا تاکہ وہ غاصب حکومت کے خلاف کوئی منظم تحریک نہ چلا سکیں۔ ( شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج 16، ص 210-214)

آج جو ممالک (جیسے ایران) عالمی استکبار کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہیں، ان پر اقتصادی پابندیاں (Sanctions) لگا دی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد اس قوم کو معاشی طور پر اتنا کمزور کرنا ہے کہ وہ اپنے اصولوں سے دستبردار ہو جائیں۔ یہ فدک پر قبضے کی جدید شکل ہے۔ اسی طرح مقامی سطح پر بھی حق گو افراد یا اداروں کو مالی طور پر کمزور کیا جاتا ہے۔

راہِ حل

جب چاروں طرف سے ایسی یلغار ہو تو حل کیا ہے؟ حل اسی ہستی کی سیرت میں ہے جس نے تاریخ کی پہلی اور سخت ترین نرم جنگ کا مقابلہ کیا۔ شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)۔ آپؑ کی حکمتِ عملی، جسے ہم “جہادِ تبیین” (حقائق کو واضح کرنے کی جدو جہد) کہتے ہیں، آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔

جناب سیدہ (س) نے دربار میں اسلام اور امامت کی حقانیت پر قرآن کی آیات سے استدلال کیا۔ آج ہمارا پہلا فرض اپنے آپ کو علمی طور پر مضبوط کرنا ہے۔ ہمیں قرآن، نہج البلاغہ اور سیرتِ اہل بیتؑ کا گہرا مطالعہ کرنا ہوگا تاکہ ہم دشمن کے بیانیے کو پہچان سکیں اور اس کا منطقی جواب دے سکیں۔ علم کے بغیر جہادِ تبیین ناممکن ہے؛ اس کے بعد میدانی جہاد میں قدم رکھنا ہے۔

رحلتِ رسول (ص) کے بعد، امیرالمومنین علیؑ، جناب سیدہ (س) کے ہمراہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو لے کر کئی راتوں تک بدری صحابہ کے گھروں پر گئے، انہیں غدیر کا واقعہ یاد دلایا اور حق کی نصرت کی دعوت دی۔ یہ عوام کے ذہنوں سے سقیفہ کے پروپیگنڈے کو زائل کرنے کی پہلی عملی کوشش تھی۔ اگر چہ تاریخ کے مطابق صرف چند افراد نے وعدہ وفا کیا، لیکن یہ عمل بذات خود تاریخ میں حق کو ثبت کر گیا۔( کتاب سلیم بن قیس ہلالی، ج 2، ص 580-581)

جب فدک غصب کیا گیا تو جناب سیدہ (س) نے مسجد نبوی میں ایک تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ صرف فدک کی واپسی کا مطالبہ نہیں تھا، بلکہ یہ سقیفائی حکومت کے خلاف ایک مکمل چارج شیٹ اور جوابی نرم جنگ کا نقطہ عروج تھا۔ اس خطبے میں آپؑ نے توحید، نبوت اور فلسفہِ احکام بیان کرکے ثابت کیا کہ سقیفہ کا عمل دین کی روح کے خلاف ہے۔ اسی طرح جناب سیدہ (س) کا مسلسل گریہ کرنا اور بیت الاحزان میں وقت گزارنا محض ایک ذاتی غم کا اظہار نہیں تھا، بلکہ ایک سیاسی اور تبلیغی حکمتِ عملی تھی۔ آپؑ کا گریہ ہر لمحہ مدینہ والوں کو یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا تھا کہ آخر رسول (ص) کی بیٹی کس پر اور کیوں مسلسل رو رہی ہیں؟

یہ خاموش احتجاج سقیفہ کے فتح اور اجماع کے جشن کو ماند کر رہا تھا اور مظلومیت کا ایک ایسا طاقتور بیانیہ قائم کر رہا تھا جسے تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکی۔

گرچہ اہل بیتؑ ظاہری طور پر حکومت حاصل نہ کرسکے، لیکن ان کی جوابی نرم جنگ (جہادِ تبیین) نے حق اور باطل کے درمیان لکیر کھینچ دی۔ جناب سیدہ (س) کے خطبے اور سیرت نے قیامت تک کے لیے سقیفہ کے بیانیے کو چیلنج کر دیا اور حق کے متلاشیوں کے لیے راستہ واضح کر دیا۔

نرم جنگ کا ایک اور طریقہ بلکہ سب سے بڑا ہدف تقسیم ہے۔ سقیفہ نے امت کو تقسیم کیا اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ اس کا علاج جناب سیدہ (س) کے اسی فرمان میں ہے: وَ إِمَامَتنَا أَمَاناً مِنَ الْفُرْقَة (اور ہماری امامت تفرقہ سے امان کا ذریعہ ہے)۔ آج غیبتِ امام زمانہ (عج) کے دور میں یہ مرکزیت ولایتِ فقیہ اور مرجعیت ہے۔ جب ہم اپنے تمام انفرادی و اجتماعی معاملات میں جامع الشرائط مجتہدین کی طرف رجوع کریں گے تو دشمن کی کوئی سازش ہمیں تقسیم نہیں کر سکے گی۔ انفرادی سوچ اور گروہی عصبیت ہمیں کمزور کرتی ہے، جبکہ ایک الٰہی مرکز سے وابستگی ہمیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیتی ہے۔

یہ جنگ آج بھی جاری ہے اور تا ابد جاری رہے گی، سقیفہ سے سوشل میڈیا تک، صرف ہتھیار بدلے ہیں، مقصد وہی ہے فکر کا قتل اور حق سے انحراف۔ ہم یا تو اس جنگ میں لاتعلق رہ کر شکست خوردہ بن سکتے ہیں، یا پھر فاطمی حکمتِ عملی اپنا کر جہادِ تبیین کا حصہ بن سکتے ہیں۔ انتخاب ہمارا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم خاموش تماشائی بن کر تاریخ کے غلط رخ پر کھڑے ہوں گے، یا جنابِ سیدہ (س) کے سپاہی بن کر، اپنے قلم، اپنی زبان اور اپنے عمل سے وقت کے امام (عج) کی نصرت کے لیے راہ ہموار کریں گے۔

یہ فیصلہ میں نے کرنا ہے؛ آپ نے کرنا ہے اور ہم سب نے کرنا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha