تحریر: مولانا محمد صادق (الوعد)
حوزہ نیوز ایجنسی| آج کے دور میں، بعض لوگ علم کو صرف اسی چیز تک محدود سمجھتے ہیں جو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ وہ ڈگریوں اور مہارتوں کو ہی علم کا معیار گردانتے ہیں، لیکن کیا حقیقت بھی یہی ہے، جبکہ وہ علم جو انسان کی حقیقی روحانی پیاس نہ بجھا سکے، جو اس کی اندرونی بے چینی کا جواب نہ دے سکے اور جو اسے مقصدِ حیات سے روشناس نہ کروا سکے، وہ حقیقی علم کیسے ہوسکتا ہے۔
بظاہر، اسلام اور جدید مغرب دونوں ہی علم اور پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں، بلکہ مغرب اور پوری دنیا میں سالانہ بجٹ کا بیشتر حصہ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں نظام تعلیم اور فلسفہ تعلیم میں بنیادی فرق کیا ہے اور کہاں پر ہے۔ اگر ہم قرآنی آیات خاص کر سورہ علق کی ابتدائی آیات کا بغور جائزہ لیں تو فرق بالکل واضح ہے ۔بلکہ بِاسْمِ رَبِّکَ (اپنے رب کے نام سے) کی چھوٹی سی قید ان دونوں تفکر کے درمیان وہ گہری اور عظیم فکری خلیج کو عیاں کر دیتی ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) پر سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت کی ابتدا میں ہی خدواند حکیم نے جو تین کلیدی الفاظ استعمال کئے ہیں وه در حقیقت اسلامی فلسفہ تعلیم کا مکمل نصاب ہے کہ جس کی طرف علامہ طباطبائی اپنی شہرہ آفاق تفسیر "المیزان" میں یوں بیان فرماتے ہیں :کہ" اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ "میں حرف باء صرف برکت کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ خود پڑھنے کے عمل کو پابند کرتا ہے۔ یعنی تمہارا پڑھنا ( بلکہ ہر کام کی ابتدا)اللہ کے نام پر ہونی چاہیے۔"¹ اس کا مطلب یہ ہوا که اسلامی نقطہ نظر سے علم کا حصول بذات خود ایک الٰہی فعل ہے، جو کائنات پر حاکم ربوبی نظام کو سمجھنے اور اس سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہے۔
لفظ " ربّ" کے معانی میں سے ایک صاحبِ اختیار اور تربیت کرنے والا ہے۔ اور یہاں علم کو اللہ کی ربوبیت سے جوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی علم وہی ہے جو انسان کی تربیت، نشوونما اور کمال کے راستے پر گامزن ہو (جو کہ ربوبیتِ الٰہی کا بنیادی مقصد ہے)۔
"الَّذِیْ خَلَقَ" (جس نے پیدا کیا): پڑھنے (اِقْرَأْ) کے عمل کو براہِ راست تخلیق (خَلَقَ) سے جوڑنا ایک اہم اور کلیدی اصول کو بیان کرتا ہے کہ" علم کا مقصد نظامِ کائنات میں موجود الٰہی قوانین اور نشانیوں کو دریافت کرنا ہے ۔ اس نقطہ نظر سے ، فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی اور دیگر تجرباتی علوم، تخلیق کی عظیم کتاب کو پڑھنے اور اس کے خالق کے قریب ہونے کا ذریعہ ہیں۔پس قرآن حکیم تمام بشر کو ایک ایسے علم کی دعوت دیتا ہے جو اللہ کی مدد سے حاصل کیا جائے، انسان کی الٰہی تربیت کی سمت میں ہو، اور جس کا مقصد تخلیق کے رازوں سے پردہ اٹھانا ہو۔
آیت اللہ مصباح یزدی جدید علم کے بحران کے بارے میں فرماتے ہیں۔ کسی بھی علم کی قدر و قیمت دو چیزوں پر منحصر ہے: متعلَّقِ معرفت (علم کا موضوع) اور نیت و محرک (علم حاصل کرنے کا مقصد)۔" بِاسْمِ رَبِّکَ" کی قید دوسری شرط کو پورا کرتی ہے اور جستجو گر کی باطنی سمت کو خود محوری سے خدا محوری کی طرف موڑ دیتی ہے، تاکہ علم محض طاقت اور لذت کے حصول کا ذریعہ نہ بن جائے۔²
اس کے برخلاف جدید علم نے اس الٰہی قید کو ہٹا کر خود کو مبدا اور معاد سے الگ کر لیا، جس کے نتیجے میں وہ ایک بھٹکی ہوئی اور خطرناک طاقت میں تبدیل ہو گیا۔ علامہ اقبال مغرب کے بحران کو عقل کی عشق (روحانیت و ایمان) سے جدائی میں دیکھتے تھے۔ ان کے مطابق، مغربی علم نے طبیعت کو تو مسخر کر لیا، لیکن انسان کو اس کی الٰہی خودی سے بیگانہ کر دیا۔ اس علم نے آنکھوں کو تو خیرہ کردیا ، لیکن بصیرت عطا نہیں کیا، جبکہ اصل چیز دل و نگاہ کا مسلمان ہونا ہے۔
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
شہید مطہری اس تضاد کی یوں وضاحت کرتے ہیں: وہ علم و دانش جو انسان کو چاند اور کہکشانوں پر تو لے جاتا ہے لیکن عین اسی وقت انسانوں پر بم برسانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، بیماریوں کو ختم کرنے کے بجائے مختلف وائرس اور بیماریاں ایجاد کرنے کا سبب بن جاتا ۔سینکڑوں جانوں کو ایک ہی لمحے میں صفحہ ہستی سے مٹا دیتا (اخلاقی پستی کی انتہا) وه علم، علم ہی نہیں بلکہ عصر جدید کی وحشی گری کی انتہا ہے، جو بِاسْمِ رَبِّکَ سے کٹے ہوئے ا ِقْرَأ کا براہ راست نتیجہ ہے۔⁴
مفسر قرآن ، مفکر جہاں اسلام آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں: علم جسم اور روح کی ترکیب کا نام ہے ۔ علم کا جسم وہی فارمولے، اور نظریات ہیں جو یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ لیکن علم کی روح اس کی الٰہی سمت، کائنات کے خالق سے اس کا تعلق اور انسان کے بنیادی وجودی سوالات کا جواب دینے کی صلاحیت ہے۔ آپ مذید یوں وضاحت کرتے ہیں: جو کچھ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے کچھ علوم حقیقت میں ہی علم نہیں، بلکہ علم کا لاشہ ہے۔ وہ علم جو انسان کی باطنی ضرورت اور حقیقی پیاس کو بجھا نہ سکے، وہ حقیقی علم نہیں ہے۔" ⁵
اس نظریے کے مطابق، علم کا لاشہ وہ علم ہے جو"بِاسْمِ رَبِّکَ" سے جدا ہو، جو ہے تو طاقتور لیکن مردہ جسم کی مانند ہے۔ یہ علم نت نئی ٹیکنالوجی تو ایجاد کرسکتا ہے، لیکن یہ نہیں بتا سکتا کہ انسان کو کیوں جینا ہے؟ اور کیسے جینا ہے؟ یہ علم ممکن ہے مادی بھوک تو مٹادے ، لیکن روحانی پیاس کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ جبکہ انسان کی اصل اور فطری ضرورت محض معلومات کا ذخیرہ کرنا نہیں، بلکہ سکون ، زندگی کو با معنی اور کمال تک پہنچنا ہے۔ چونکہ علم کا لاشہ اپنے سرچشمہ حیات سے کٹا ہوا ہے، اس لیے وہ ان بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
قرآنی حل:
قرآن کریم علم اور ایمان کے درمیان ایک متوازن اور کامل حل پیش کرتا ہے، جو علم میں روح پھونک دیتا ہے۔ قرآنی ماڈل" اُوتُوا الْعِلْمَ وَ الْایمانَ" (روم/۵۶) ہے یہ آیت قرآنی انسان کامل کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ یعنی وہ لوگ جنہیں علم اور ایمان دونوں عطا کیے گئے۔
علامہ طباطبائی کے نزدیک یہ دونوں (علم وایمان) حقیقت تک پہنچنے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔⁶ اور شہید مطہری اسے دو پروں والے کبوتر سے تشبیہ دیتے ہیں، جو ایک پر کے بغیر پرواز نہیں کر سکتا۔اس آیت میں کلیدی نکتہ لفظ اُوتُوا ہے، جس کا مطلب ہے انہیں دیا گیا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حقیقی علم اور پختہ ایمان دونوں ہی اللہ کی طرف سے عطا کردہ تحفے ہیں۔ یہ محض انسانی کوشش کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک الٰہی توفیق ہے جو پاکیزہ دلوں اور متلاشی ذہنوں کو نصیب ہوتی ہے۔ لہذا علم و ایمان بقول شہید مطہری کے، دو پروں والے کبوتر کی مانند ہے ۔ اگر ایک پر بھی کمزور یا ٹوٹا ہوا ہو تو پرندہ بلندی کی طرف پرواز نہیں کر سکتا، بلکہ صرف زمین پر پھڑپھڑاتا رہے گا۔ انسانیت کا کمال بھی اسی روحانی پرواز میں ہے جو علم اور ایمان کے متوازن اور مضبوط پروں سے ہی ممکن ہے۔
لیکن علم اگر ایمان کی رہنمائی کے بغیر ہو تو وہ انسان کو کائنات کی مادی حقیقتوں، قوانینِ فطرت اور ٹیکنالوجی پر عبور تو دلا سکتا ہے، لیکن اسے وجود کے مقصد، اخلاقی سمت اور روحانی قلبی اطمینان سے بے بہرہ رکھتا ہے۔ دوسری طرف، ایمان اگر علم اور عقل کی بنیادوں پر استوار نہ ہو تو وہ توہم پرستی، جہالت اور جامد تقلید میں بدل جاتا ہے۔ ایسا ایمان انسان کو زمانے کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور دین کی حقیقی روح کو سمجھنے سے قاصر کر دیتا ہے۔ موجودہ تمام بحرانوں کا حل قرآنی فکر کی طرف واپسی اور علم کے بے جان کالبد میں الٰہی روح پھونکنے میں ہے، تاکہ علم ایک بار پھر انسانیت کی بلندی، حکمت اور فلاح کا ضامن بن سکے۔
حوالہ جات
۱. طباطبائی، سید محمد حسین (علامہ). المیزان فی تفسیر القرآن، جلد ۲۰. قم: دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۴۱۷ھ۔
۳. مصباح یزدی، محمد تقی (آیت اللہ). آموزشِ فلسفہ، جلد ۱. تہران: انتشارات بینالملل، ۱۳۸۴ ش۔
۴. جوادی آملی، عبداللہ (آیت اللہ). منبع الفکر. قم: مرکز نشر اسراء، ۱۳۹۱ ش۔
۵. مطہری، مرتضی (شہید). آشنایی با قرآن، جلد ۱۴. تہران: انتشارات صدرا، ۱۳۸۸ ش۔
۶. لاہوری، محمد اقبال (علامہ). کلیاتِ اقبال (اردو). لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ( (احیائے فکرِ دینی در اسلام). لاہور









آپ کا تبصرہ