تحریر : مولانا صادق الوعد قم المقدس
حوزہ نیوز ایجنسی|
دورِ جدید کی عورت اور شناخت
اکیسویں صدی کی عورت، بالخصوص ترقی پذیر معاشروں میں، ایک پیچیدہ فکری دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف روایتی سماجی دباؤ ہے جو اس کی شناخت کو محض اضافی اور نسبتی کرداروں (بیٹی، بیوی، ماں) تک محدود رکھنا چاہتا ہے، اور دوسری طرف ایک بے مہار جدیدیت کا دور ہے جو اسے اپنی روحانی اور ثقافتی جڑوں سے کاٹ کر ایک ایسی آزادی کا تصور دیتا ہے جو اکثر سطحی اور کھوکھلی ثابت ہوتی ہے۔ اس کشمکش میں، وہ اپنی حقیقی شناخت، مقصد اور باوقار کردار کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ اس لئے ان کو ایسے رول ماڈلز کی ضرورت ہے جو نہ تو ماضی میں جامد ہوں اور نہ ہی مغرب کی اندھی تقلید پر مبنی ہوں، بلکہ اپنی تاریخ اور اقدار کے اندر رہتے ہوئے اسے طاقت، حکمت اور بامقصد کردار عطا کریں۔ اسی تناظر میں حضرت فاطمہ بنتِ حزام، معروف بہ اُمُّ البنین (ع)، کی شخصیت بہترین آئیڈیل ہے ۔ آپ کو اکثر صرف حضرت عباس (ع) کی مادر گرامی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جو بلاشبہ ایک عظیم شرف ہے، لیکن یہ شناخت آپ کی عمیق اور کثیر الجہتی شخصیت کا صرف ایک پہلو ہے۔ آپ کی زندگی اور سیرت کو محض ایک تاریخی داستان کے طور پر نہیں، بلکہ کامل مکتب ام البنین کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا فکری و عملی ڈھانچہ ہے جو آج کی عورت کو درپیش بنیادی چیلنجز کا حل پیش کرتا ہے۔ اس مکتب کو سمجھنے کے لیے ہمیں شناخت کی دونوں اقسام میں فرق کرنا ہوگا:
اضافی یا نسبتی شناخت
یہ وہ شناخت ہے جو کسی دوسرے شخص یا چیز کے حوالے سے وجود میں آتی ہے، مثلاً: فلاں کی بیٹی، فلاں کی بیوی۔ اس شناخت میں فرد کی اپنی ذات مرکز نہیں ہوتی، بلکہ اس کی قدر کا انحصار اس رشتے پر ہوتا ہے جس سے وہ منسلک ہے۔ اسے ایک معاون کردار تک محدود کر دیا جاتا ہے۔
بنیادی یا ذاتی شناخت
یہ ایسی شناخت ہے جو کسی فرد کی اپنی ذات، صفات، صلاحیتوں، عقائد سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ ایک آزاد شناخت ہے جس میں فرد کی قدر اس کی اپنی ذات میں ہوتی ہے، نہ کہ کسی رشتے کی وجہ سے۔ وہ اپنی کہانی کا مرکزی کردار ہوتی ہے۔ جدید معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ وہ عورت کو اکثر پہلی قسم کی اضافی شناخت میں قید کر دیتا ہے۔ حضرت ام البنین (ع) کی زندگی اس تصور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے اور یہ سکھاتی ہے کہ ایک عورت کس طرح اضافی کرداروں کو نبھاتے ہوئے بھی اپنی بنیادی شناخت کو نہ صرف قائم رکھ سکتی ہے، بلکہ اسے مزید مضبوط اور بامقصد بنا سکتی ہے، اس عمل کو ہم دو مراحل میں تحلیل کر سکتے ہیں:
پہلا مرحلہ
یہ حضرت ام البنین (ع) کی بیتِ حیدر کرار (ع) میں آمد سے قبل کا مرحلہ ہے۔ امام علی (ع) کا حضرت عقیل (رض) سے ایسی خاتون کا انتخاب کرنے کے لیے کہنا جو عرب کے بہادر ترین خاندان سے ہو، اس کی سطحی تشریح یہ ہے کہ امام (ع) کو ایک بہادر بیٹا چاہیے تھا جو کربلا میں امام حسین (ع) کی مدد کرے۔ لیکن حقیقت میں یہ معاملہ محض ایک بہادر بیٹے کے حصول سے کہیں زیادہ گہرا تھا۔ یہ اس بات کا اعتراف تھا کہ حضرت ام البنین (ع) شادی سے پہلے ہی اپنی ایک مستقل اور مضبوط شناخت رکھتی تھیں۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنی کِلاب سے تھا، جو صرف شجاعت ہی نہیں بلکہ فصاحت، مہمان نوازی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مرکز سمجھا جاتا تھا (مسعودی، ۱۳۷۴)۔ امام علی (ع) ایک ایسی شخصیت کی تلاش میں تھے جو پہلے سے ہی اپنی ذات میں غیر معمولی صفات (شجاعت، خاندانی اصالت، فکری پختگی) رکھتی ہوں۔
آپ کا انتخاب اس لیے نہیں ہوا کہ آپ کو ،علی (ع) کی زوجہ، بننا تھا، بلکہ آپ کا انتخاب اس لیے ہوا، کیونکہ آپ فاطمہ بنتِ حزام کِلابیہ تھیں۔ ایک ایسی خاتون جو اپنی ذات میں ایک مکمل ذاتی و وراثتی سرمایہ رکھتی تھیں۔ آپ کی قدر آپ کے ہونے والے رشتے سے نہیں، بلکہ آپ کی اپنی ذاتی حیثیت سے تھی۔ یہ مرحلہ آج کی عورت کو سکھاتا ہے کہ اس کی قدر اور شناخت شادی یا کسی رشتے سے مشروط نہیں ہے۔ اس کی تعلیم، ہنر، کردار اور اخلاقیات ہی اس کی اصل بنیادی شناخت ہیں۔
دوسرا مرحلہ
یہ بیتِ علی (ع) میں آنے کے بعد کا مرحلہ ہے اور حضرت ام البنین (ع) کی غیر معمولی حکمت اور فعال طور پر فیصلے کرنے کی صلاحیت) کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ (ع) کا امام علی (ع) سے یہ درخواست کرنا کہ مجھے میرے نام فاطمہ سے نہ پکارا جائے، تاکہ شہزادوں اور شہزادیوں کو اپنی والدہ سیدہ فاطمہ (س) کی یاد سے تکلیف نہ ہو، بظاہر ایک عاجزانہ عمل لگتا ہے۔ لیکن اس کی گہرائی میں ایک غیر معمولی اسٹریٹجک ذہانت پوشیدہ ہے۔یہ عمل اپنی شناخت کو مٹانے کا نہیں تھا، جیسا کہ بظاہر محسوس ہو سکتا ہے۔ بلکہ یہ اپنی شناخت کو ایک اعلیٰ مقصد کے تحت شعوری طور پر نئی شکل دینے کا عمل تھا۔ یہ کمزوری نہیں، بلکہ طاقت اور حکمت کی انتہا تھی۔ آپ نے اپنی شناخت کو ختم نہیں کیا، بلکہ اسے اپ گریڈ (Upgrade ) کیا۔ آپ فاطمہ بنتِ حزام سے اُمُّ البنین (بیٹوں کی ماں) بن گئیں۔ یہ نیا لقب محض ایک نام نہیں تھا، یہ آپ کے نئے مشن کا اعلان تھا۔ آپ نے ایک ذاتی نام کی جگہ ایک بامقصد اور کردار پر مبنی شناخت کو اپنا کر دنیا کو بتایا کہ میں اس گھر میں محض ایک بیوی بن کر نہیں آئی، بلکہ ایک خاص مقصد—امامِ وقت کے محافظوں کی تربیت کرنے والی ماں—کے طور پر آئی ہوں۔
ظاہری طور پر ام البنین ایک اضافی یا نسبتی شناخت ہے، لیکن آپ نے اس کردار کو ایسی عظمت اور مقصدیت کے ساتھ نبھایا کہ یہی آپ کی بنیادی اور ابدی شناخت بن گئی۔ آج تاریخ آپ کو آپ کے والد یا قبیلے کے نام سے کم، اور ام البنین کے لقب سے زیادہ جانتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب ایک عورت اپنے نسبتی کردار میں اپنی بنیادی شناخت (حکمت، بصیرت، مقصد) کو شامل کر دیتی ہے، تو وہ اضافی کردار خود ایک بنیادی شناخت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ آج کی عورت اکثر اپنی ذاتی شناخت (مثلاً کیریئر) اور خاندانی کردار (بیوی، ماں) کے درمیان تصادم محسوس کرتی ہے۔ حضرت ام البنین (ع) سکھاتی ہیں کہ ان دونوں میں تصادم کی ضرورت نہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ: آیا آپ کے کردار آپ کی تعریف متعین کر رہے ہیں، یا آپ اپنے کرداروں کی تعریف متعین کر رہی ہیں؟ حضرت ام البنین (ع) نے دوسری راہ اپنائی۔
ایک نسل کی شعوری تربیت
حضرت ام البنین (ع) کی زندگی خاندان اور مقصد کے درمیان توازن کی بہترین مثال ہے۔ امام علی (ع) اور حضرت ام البنین (ع) کا عقد محض ایک شادی نہیں، بلکہ ایک “اسٹریٹجک الائنس” تھا۔ امام علی (ع) اپنے علمِ امامت سے کربلا کے میدان کو دیکھ رہے تھے اور انہیں اس مشن کے لیے ایک ایسی شریکِ حیات درکار تھیں جو نہ صرف ایک بہادر بیٹے کو جنم دیں، بلکہ اس کی ایسی تربیت کریں کہ وہ امامت کے دفاع کی علامت بن جائے۔ حضرت ام البنین (ع) نے اس عظیم ذمہ داری کو صرف قبول نہیں کیا، بلکہ اسے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ یہ آج کی ان خواتین کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ ہے جو شادی کو محض ایک سماجی ضرورت سمجھتی ہیں۔ مکتبِ ام البنین یہ سکھاتا ہے کہ ازدواجی تعلق کو ایک مشترکہ اعلیٰ مقصد کی تکمیل کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے، جہاں میاں بیوی ذاتی خواہشات سے بلند ہو کر ایک الٰہی منصوبے میں شراکت دار بن جاتے ہیں۔
آپ نے چار بیٹوں کو جنم دیا، لیکن آپ نے انہیں اپنے بیٹے سمجھ کر نہیں پالا، بلکہ “امامِ وقت کے محافظ” کے طور پر ان کی پرورش کی۔ آپ نے ان کے ذہنوں میں یہ بات نقش کر دی کہ ان کی زندگی کا مقصد امام حسین (ع) کی ذات پر قربان ہونا ہے۔ یہ شعوری تربیت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ آج کے دور میں جہاں والدین اپنی اولاد کو صرف دنیاوی کامیابی (اچھی نوکری، بڑا گھر) کے لیے تیار کرتے ہیں، مکتبِ ام البنین یہ درس دیتا ہے کہ حقیقی کامیابی اولاد کو اعلیٰ انسانی اور الٰہی اقدار کا محافظ بنانا ہے۔ جب امام علی (ع) نے بچپن میں حضرت عباس (ع) کے بازوؤں کو چوم کر ان کے کٹنے کی خبر دی تو آپ نے آہ و بکا کرنے کی بجائے اللہ کا شکر ادا کیا (مقرم، ۱۳۶۹ق)۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اس قربانی کے لیے ذہنی اور روحانی طور پر تیار تھیں اور یہی آمادگی آپ نے اپنی اولاد میں منتقل کی۔
آنسوؤں سے جہاد
حضرت ام البنین (ع) کا سب سے انقلابی اور آج کے دور سے سب سے زیادہ متعلقہ پہلو، سانحہ کربلا کے بعد آپ کا کردار ہے۔ جب یزیدی آمریت نے تلوار کے زور پر ہر آواز کو دبا دیا تھا اور کربلا کو ایک بغاوت کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، تب حضرت ام البنین (ع) نے مزاحمت کا ایک ایسا محاذ کھولا جسے آج کی زبان میں سافٹ پاور (Soft Power) یا علامتی احتجاج کہا جاتا ہے۔ آپ کا روزانہ اپنے پوتے عبیداللہ کو لے کر جنت البقیع جانا اور وہاں مرثیہ خوانی کرنا ایک انتہائی منظم اور کثیر المقاصد سیاسی حکمت عملی تھی ۔ ایک ماں، جس نے چار بیٹے قربان کیے ہوں، کا عوامی مقام پر رونا ایک ایسا عمل تھا جسے حکومتی کارندے آسانی سے روک نہیں سکتے تھے۔ آپ نے اپنے ذاتی غم کو عوامی احتجاج میں بدل کر اس جبری خاموشی کو توڑا۔
اموی حکومت کے سرکاری بیانیے کے مقابلے میں، آپ نے اپنے فصیح و بلیغ مرثیوں کے ذریعے کربلا کی اصل حقیقت—مظلومیتِ حسین (ع) اور ظلمِ یزید—کو عوام تک پہنچایا۔ آپ کے آنسو اور اشعار تاریخ کے متبادل اور سچے راوی بن گئے۔
آپ کی عزاداری نے مدینہ کے عوام کو وہ نفسیاتی اور سماجی محفوظ جگہ فراہم کی جہاں وہ بھی اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے تھے اور حسینی مقصد سے اپنی وابستگی کا اعادہ کر سکتے تھے۔ یہ اجتماع آہستہ آہستہ اموی حکومت کے خلاف ایک خاموش عوامی طاقت کی شکل اختیار کر گیا۔ یہاں تک کہ مروان بن حکم جیسا دشمنِ اہل بیت بھی آپ کا نوحہ سن کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا (سماوی، ۱۳۷۷)۔آپ کی عزاداری اس بات کو یقینی بنانے کا ذریعہ تھی کہ کربلا کا واقعہ فراموش نہ کر دیا جائے اور اس کا پیغام آنے والی نسلوں تک منتقل ہوتا رہے۔









آپ کا تبصرہ