حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت ام البنین علیہا السلام کی یاد میں منعقدہ مجلسِ عزاء سے امام جمعہ تاراگڑھ حجت الاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مجلس اس عظیم ذات کی یاد میں ہے، جس نے کائنات کو عباس جیسا بہادر، شجاع، وفادار بیٹا عطا کیا، بلکہ آپ کے چاروں فرزند کربلا میں امام حسین علیہ السّلام سے وفاداری کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔
خطیبِ مجلس حجت الاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ آپ کی جو خصوصیت آپ کو سب سے منفرد اور ممتاز بناتی تھی وہ آپ کی پردہ نشینی بے مثال حیا,پاکدامنی اور آپ کا خاص نسوانی حسن وجمال تھا جس نے آپ کی شیرانہ جرأت و ہمت اور بہادری کے ساتھ مل کر آپ کو ایک بے مثال اور آئیڈیل خاتون بنا دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت کم لوگ ہی آپ کا رشتہ مانگنے کی ہمت کر پا رہے تھے اور وہ بھی اس زمانے کے اشراف اور نمایاں صفات وکمالات کے حامل لیکن انھیں سوائے نہ کے اور کچھ سننے کو نہیں ملتا تھا، جب آپ سے دریافت کیا جاتا کہ آخر آپ شادی کیوں نہیں کرتیں تو آپ جواب دیتیں کہ ان رشتہ دینے والوں میں کوئی جواں مرد نہیں ہے جس دن کوئی جواں مرد رشتہ لیکر آئے گا ہاں کردوں گی۔ معاویہ آپ سے شادی کرنے کا بہت تمنائی تھا اور بار بار رشتہ بھیجتا تھا، لیکن ہر بار سوائے رد اور انکار کے کچھ ہاتھ نہ لگتا اور رشتہ لے جانے والے منہ کی کھا کر ذلت کے ساتھ خالی ہاتھ واپس آجاتے۔ یہاں تک کہ ایک رات آپ نے ایک خواب دیکھا۔ اس کی صبح جناب "عقیل"، مولائے کائنات کے بھائی اور آپ کے قاصد جو عرب کے سب سے بڑے نسب شناس تھے حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام)، کا رشتہ لیکر پہنچے، یہ دیکھ کر جناب فاطمہ کلابیہ کے پاکیزہ لبوں پر بے ساختہ ایک معنی خیز مسکراہٹ آگئی آپ سمجھ گئیں کہ آپ کا خواب سچا تھا۔ آپ خوشی اور مسرت کی بناء پر شدت شوق میں گریہ کرنے لگیں آپ کی زبان پر یہ فقرے تھے: خدا کا شکر! میں کسی جوانمرد سے شادی کرنا چاہتی تھی، جبکہ خدا نے میرے لیے جوانمردوں کے سیدو سردار کو بھیج دیا۔ آپ نے اپنے ماں باپ کی مرضی اور خوشی کو بھی اپنی اس مسرت میں شامل کرکے فوراً اس پاکیزہ رشتہ کے لیے "ہاں "کردی اور اس طرح آپ جانشین رسول خدا (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شریک حیات بن گئیں۔
امام جمعہ تاراگڑھ حجت الاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ آپ کی دوسری خصوصیت آپ کا ادب تھا۔ آپ موقع و محل دیکھ کر گفتگو فرماتی تھیں۔ آپ اپنے مرتبے اور اس کی حدود سے پوری طرح آگاہ تھیں۔ آپ کے کردار میں کسی طرح کی غلطی خطا اور گناہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جس دن آپ نے جناب امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں قدم رکھا آپ کے بچوں سے مخاطب ہوکر پہلا جملہ یہ ارشاد فرمایا: میں اس گھر میں آپ کی ماں بن کر نہیں آئی ہوں۔ میں کہاں اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد کہاں ؟ میں تمہاری کنیزی کرنے کے لیے آئی ہوں اور آپ نے حقیقت میں دکھا دیا کہ آپ سچ کہ رہی تھیں۔
امام جمعہ تاراگڑھ نے حضرت ام البنین علیہا السلام کی مزید خصوصیات کو بیان کیا اور کہا کہ حضرت ام البنین علیہا السلام کی نمایاں خصوصیات میں سے تیسری خصوصیت "بصیرت" ہے۔ بصیرت کا ایک وسیع مفہوم ہے اور اس میں معرفت خدا، معرفت نبوت، معرفت امامت، دیانت داری اور سب سے اہم دشمنی کی شناخت بھی شامل ہے۔ جب حضرت ام البنین علیہا السلام امیر المومنین علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوئیں تو آپ نے فرمایا: "اس گھر میں اب مجھے فاطمہ نہ کہئے گا"۔ آپ کا یہ جملہ آپ کی عظیم بصیرت کا عکاس ہے۔
حجت الاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے مزید کہا کہ آپ کی چوتھی خصوصیت ولایت و محبّت حسینی ہے کہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے نکلنا چاہا تو حضرت ام البنین علیہا السلام تشریف لائیں اور سید الشہداء علیہ السلام کے اصحاب کو خطاب کر کے فرمایا: میرے آقا کی آنکھ اور دل بنو۔ امام حسین علیہ السلام کی اطاعت اور پیروی کرو ۔ روایت ہے کہ جب بشیر مدینہ آیا اور حضرت ام البنین علیہا السلام کے بچوں کی شہادت کا اعلان کرنے لگا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے حسین علیہ السلام کے بارے میں بتاؤ! میری تمام اولاد اور آسمان کے نیچے جو کچھ ہے، حسین پر قربان۔ یہ قول و فعل اسلام کی اس عظیم خاتون کی ولایت کی عمق و گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
خطیبِ مجلس نے دین کی راہ میں خرچ کرنے کو حضرت ام البنین علیہا السلام کی پانچویں نمایاں خصوصیت کے عنوان سے بیان کیا اور کہا کہ انبیاء اور ائمہ علیہم السّلام نے ہمیشہ خدا کے دین پر سب سے زیادہ خرچ کیا۔ کبھی عزت، کبھی مال اور کبھی جان کی صورت میں۔ حضرت ام البنین (س) نے اپنی ساری زندگی دین خدا کے لیے دل و جان سے گزاری اور اپنے چاروں بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر قربان کردیا۔
مولانا نقی مہدی زیدی نے مجلس کے آخر میں کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جناب ام البنین علیہا السلام نے امام حسین علیہ السّلام پر پانچ سال گریہ کیا اور آپ امام حسین علیہ السّلام پر مرثیہ پڑھتی اور گریہ کرتی تھیں؛ یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں نابینا ہو گئیں۔









آپ کا تبصرہ