حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر ہندوستان میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کے بعد حسب سابق امام حسن عسکری علیہ السّلام کے وصیت نامے کی شرح و تفسیر کی اور خواتین کے حقوق کا ذکر کیا اور کہا کہ اسلام نے جس طرح خواتین کو اعلیٰ مرتبہ اور مقام دیا ہے، دنیا کے کسی بھی دین اور مذہب نے نہیں دیا اور اسلام تمام مذاہب کے مقابل میں عورتوں کے بارے میں سب سے زیادہ ترقی پسند نظریہ رکھتا ہے۔
انہوں نے قرآن کریم میں خواتین کے مقام کا مزید ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں مرد اور عورت کبھی بھی جنسیت کی بنیاد پر نہیں پرکھے گئے، اور قرآن کریم کی کسی بھی آیت میں عورتوں پر مردوں کی برتری کا ذکر نہیں ہے اور تخلیق کے نقطۂ نظر سے، خدا نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے سے الگ نہیں رکھا ہے، بلکہ ایک ہی مٹی سے بنایا ہے اور ان دونوں کی اصل تخلیق کے نظام میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔
امام جمعہ تاراگڑھ نے سورۂ نحل کی آیت نمبر ٩٧ کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ روحانی معاملات میں مرد اور عورت ہر لحاظ سے برابر ہیں، لہٰذا ان میں سے جو بھی نیک عمل انجام دے گا اس کے نصیب میں حیات طیبہ ہوگی، قرآن کریم مردوں اور عورتوں کے نیک اعمال میں فرق نہیں کرتا اور دونوں کے لئے ایک ہی طرح کے اجر کا ذکر کرتا ہے۔
انہوں نے سورہ نساء کی آیت نمبر ٣٢ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:"وَ لَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ وَ سۡئَلُوا اللّٰہَ مِنۡ فَضۡلِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا"، اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کیا کرو، مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ مل جائے گا اور عورتوں کو اپنی کمائی کا حصہ مل جائے گا اور اللہ سے اس کا فضل مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔
خطیبِ جمعہ تاراگڑھ حجت الاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہو سکتی ہے کہ بعض امور میں مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی گئی ہے اور بعض دیگر چیزوں میں مردوں پر عورتوں کو فضیلت دی گئی ہے تو اس کی آرزو اور تمنانہ کیا کرو، بلکہ اللہ کی تقسیم پر راضی برضا رہو، اللہ بہتر جانتا ہے کہ عورتوں پر جہاد کیوں واجب نہیں ہے اور مردوں کو زیادہ میراث کیوں ملتی ہے؟ مرد اور عورت میں حقیقی فضیلت اور کمال وہ ہے جو اپنے عمل اور کوششوں سے حاصل کردہ ہے، لہٰذا اللہ سے اس کے فضل و کرم کا سوال کرو، یعنی حصول کمال و فضیلت کے لئے دوسروں پر نگاہ نہ رکھو، بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرو، وہاں سے تمہیں فضل و کمال میسر آئے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسری تفسیر یہ ہے کہ نظام کائنات علل و اسباب کا نظام ہونے کی وجہ سے تمام انسان یکساں نہیں ہوسکتے، بلکہ یہاں مختلف حیثیتوں میں بے شمار فرق اور تفاوت موجود ہے، شکل و شمائل میں، علوم و کمالات میں، مال و دولت اور جاہ و جلالت میں، قابلیت و استعداد میں، طاقت و قوت میں، حالات کی سازگاری و ناسازگاری میں بڑا فرق اور تفاوت موجود ہے، شاید اس نظام میں ایسا ہونا ضروری ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس تفاوت کے عالم میں صرف تمنا اور آرزو سے بات نہیں بنے گی، عالم پر نظام علل و اسباب حاکم ہے جس کے تحت مرد و زن دونوں کے لئے یکساں قانون ہے، وہ یہ کہ اپنی کوششوں، کمائی اور عمل کا نتیجہ اور صلہ ملا کرے گا، لیکن ساتھ ساتھ اللہ کے فضل و احسان کی شمولیت بھی ضروری ہے، جس کا تمہیں مستحق بننا ہوگا، چنانچہ آیت میں ارشاد ہے "وَسۡئَلُوا اللّٰہَ" لہٰذا یہ مسئلہ کسب و کوشش سے مربوط ہے، تمنا و آرزو سے نہیں، یہ آرزو حسد اور کینے کا منبع ہوا کرتی ہے اور معاشرے میں بہت سے فسادات کے لیے بنیاد ہے، مرد ہو یا عورت ہر ایک کو اپنی محنت کا پھل ملے گا جس کی طرف "نَصِیۡبٌ مِّمَّا" سے اشارہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جائیداد پر عورت کا حق ان چیزوں میں سے ایک ہے جس پر اسلام اور قرآن میں تاکید کی گئی ہے کہ اگر عورت کے پاس آمدنی ہے تو وہ اس کی مالک ہے، اسے مرد مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی آمدنی کو گھریلو ضروریات اور روزمرہ کی ضرورتوں پر خرچ کرے۔
امام جمعہ تاراگڑھ حجت الاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے اسلام میں عورت کا مقام بیان کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ عورتوں کیساتھ مہر و محبت اور پیار کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "حُبِّبَتْ إِلَيَّ النِّسَاءُ وَ الطِّيبُ وَ جُعِلَتْ فِيالصَّلَاةِ قُرَّةُ عَيْنِي"، میں دنیا میں تین چیزوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں: عطر، عورت اور نماز کہ جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ یاد رہے آپ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا شہوت و غرائز جنسی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے فرامین کے ذریعے عورت کی قدر و منزلت اور شخصیت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اس عرب جاہلیت کے دور میں عورتوں کی کوئی قدر وقیمت نہیں تھی، عورت ہر قسم کے حقوق سے محروم تھی، عرب ان کے کسی اچھے عمل کو بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے، لیکن جب اسلام آیا جس نے نیکی میں مرد اور عورت کو برابر مقام عطا کیا، مؤمنہ عورت کے بارے میں امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "المرأة الصالحة خیر من الف رجل غیر صالحٍ"، ایک پاک دامن عورت ہزار غیر پاک دامن مرد سے بہتر ہے، اسی طرح ان سے محبت کرنے کو ایمان کی نشانی بتاتے ہوئے فرمایا: "عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ مَا أَظُنُّ رَجُلًا يَزْدَادُ فِي الْإِيمَانِ خَيْراً إِلَّا ازْدَادَ حُبّاً لِلنِّسَاءِ"، جب بھی ایمان میں اضافہ ہوتا ہے تو عورت سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
انہوں نے اسلام کی نگاہ میں ماں کے مقام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی نگاہ میں ماں کا مقام بہت بلند ہے خداوند عالم کے بعد دوسرا مقام ماں کو حاصل ہے، چنانچہ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں: "جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبَرُّ قَالَ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أَبَاكَ"، راوی کہتا ہے کہ تین مرتبہ میں نے سوال کیا کس کیساتھ نیکی کروں ؟ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ماں کے ساتھ نیکی کرو، اور چوتھی بار جب پوچھا تو فرمایا باپ کے ساتھ، یعنی جب سوال ہوا کہ سارے خلائق میں کون سب سے زیادہ نیکی اور حسن معاشرت کا مستحق ہے؟ تو فرمایا ماں ماں ماں اور چوتھی مرتبہ فرمایا: باپ، اور مزید فرمایا:"الجنّة تحت اقدام الامّھات"، ماؤں کے قدموں تلے جنت ہے، اور فرمایا:"اذا دعاک ابواک ، فاجب امّک"، اور جب ماں باپ دونوں ایک ساتھ تمہیں بلائیں تو ماں کو مقدّم رکھو۔
امام جمعہ تاراگڑھ حجت الاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے ماں کے حقوق بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج اس ماں کی وفات کا دن ہے جس کو تاریخ میں ام البنین سلام اللہ علیہا کہا جاتا ہے اس موقع پر تعزیت پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "بُكِيَ الحُسَينُ عليهالسلام خَمسَ حِجَجٍ. وكانَت اُمُّ جَعفَرٍ الكِلابِيَّةُ تَندُبُ الحُسَينَ عليهالسلام و تَبكيهِ وقَد كُفَّ بَصَرھا"، بی بی ام البنین علیھا السلام امام حسین علیہ السلام پہ پانچ سال تک روئیں، اور ام جعفر کلابیہ امام حسین علیہ السلام کے غم میں مرثیہ پڑھتی اور آپ پر روتی تھیں یہاں تک کہ وہ نابینا ہو گئیں۔
جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلاَم: "كَانَتْ أُمُّ اَلْبَنِينِ أُمَّ هَؤُلاَءِ اَلْأَرْبَعَةِ اَلْإِخْوَةِ اَلْقَتْلَی تَخْرُجُ إِلَی اَلْبَقِيعِ فَتَنْدُبُ بَنِيهَا أَشْجَی نُدْبَةٍ وَ أَحْرَقَهَا فَيَجْتَمِعُ اَلنَّاسُ إِلَيْهَا يَسْمَعُونَ مِنْهَا فَكَانَ مَرْوَانُ يَجِيءُ فِيمَنْ يَجِيءُ لِذَلِكَ فَلاَ يَزَالُ يَسْمَعُ نُدْبَتَهَا وَ يَبْكِي"، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا اپنے بیٹوں کی شہادت کے بعد مدینہ کے قبرستان "بقيع" میں جاتی تھیں اور اپنے بیٹوں کے لیے انتہائی دردناک اور دل سوز نوحہ و مرثیہ پڑھتی تھیں۔ ان کا نوحہ اتنا مؤثر اور دردناک ہوتا تھا کہ لوگ اسے سننے کے لئے جمع ہو جاتے تھے۔ یہاں تک کہ مروان بن حکم بھی ان لوگوں میں شامل ہوتا جو یہ نوحہ سننے آتے تھے، وہ جناب ام البنین کے نوحے کو سنتا رہتا اور روتا رہتا تھا۔
حجۃالاسلام مولانا نقی مہدی زیدی جناب ام البنین کے مرتبہ اور مقام کو تاریخ میں علماء اور بزرگوں کے اقوال کے ذریعے بیان کرتے ہوئے کہا کہ
شہید ثانی: "ام البنین (علیہا السلام) صاحب معرفت اور باعظمت خاتون تھیں۔ ان کا محبت اور لگاؤ خاندان نبوت سے خالص تھا اور انہوں نے اپنی زندگی انکی خدمت کیلئے وقف کر دی تھی۔ خاندان نبوت بھی انکی بہت قدر کرتے تھے، عید کے دن انکی زیارت کو جاتے اور انکا احترام کرتے تھے"۔ سید محسن امین (اعیان الشیعہ):"ام البنین (علیہا السلام) فصیح شاعرہ اور اصیل و شجاع خاندان سے تھیں"۔ سید عبدالرزاق موسوی مقرم: "ام البنین (علیہا السلام) باعظمت خواتین میں سے تھیں۔ انہوں نے اہل بیت کے حقوق کو پہچانا، ان سے خالص محبت کی، اور اہل بیت علیہم السلام کے درمیان ان کا بہت بلند مقام تھا"۔
سید محمود حسینی شاہرودی: "میں اپنی مشکلات میں سو مرتبہ ام البنین (علیہا السلام) پر صلوات بھیج کر حاجت روائی کرتا ہوں"۔
علی محمد علی دخیل (معاصر مصنف): "اس خاتون کی عظمت اس وقت ظاہر ہوئی جب انہیں اپنے بیٹوں کی شہادت کی خبر دی گئی تو انہوں نے اس پر توجہ نہ دی، بلکہ امام حسین علیہ السلام کی سلامتی پوچھی، گویا امام حسین علیہ السلام ان کے اپنے بیٹے تھے"۔









آپ کا تبصرہ