تحریر:مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی|
انسانی تاریخ میں کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے دھارے سے اوپر اٹھ کر ہر دور کے لیے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔ اسلام کی روشنی صرف مردوں کے ذریعے نہیں پہنچی، بلکہ خواتین کے فہم، صبر اور ایثار نے بھی اس روشنی کو دنیا تک پہنچایا۔ دینِ اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا جو نہ ماضی میں تھا اور نہ کسی تہذیب نے اس تک رسائی پائی — گھر کی دہلیز ہی آخری حد نہ تھی، بلکہ ایمان، تربیت، جہاد اور ایثار کے ہر میدان میں عورت کا حصہ روشن اور لازوال رہا۔
قرآن نے ارشاد فرمایا:“إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ” — یعنی اللہ کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ (سورۃ الحجرات: ۱۳)
یہی معیارِ عظمتِ حقیقی ہے، نہ جنس، نہ نسب۔ اسی معیار پر جنابِ فاطمہ بنتِ حزام، معروف بکنیتِ اُمُّ البنینؑ کی زندگی نورِ عمل بن کر جلوہ گر ہے۔
🔹 نسب و خاندانی شان اور انتخابِ زوجیت:
اُمُّ البنینؑ کا تعلق قبیلۂ بنی کلاب سے تھا — ایک ایسا گھرانہ جو شجاعت، سخاوت اور شرافت کے لیے مشہور تھا۔ امامِ زمان، امیرِ مؤمنین علیؑ نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد اپنے بھائی عقیلؓ سے ایسی خاتون تلاش کرنے کو کہا جو بہادری اور حسنِ کردار میں ممتاز ہو — یہ انتخاب دنیاوی سبب نہیں، آئندہ امانت کی تشکیل کے لیے حکمتِ الٰہی تھا۔ یوں آپ کی زوجیت سے وہ نسل وجود میں آئی جس نے کربلا میں وفا کی وہ تاریخ رقم کی جس کا تذکرہ ہر دل کرتا ہے۔
🔹 علیؑ کے گھر میں قدم — ادب، حیا اور معرفت:
جب امُّ البنینؑ نے پہلی بار درِ علیؑ پر قدم رکھا تو وہ عام دلہنوں کا فخر لیے نہیں آئیں، بلکہ انکسار و ادب کے ساتھ امام حسنؑ، امام حسینؑ اور حضرت زینبؑ کے سامنے سر جھکا کر کہہ گئیں:
“میں سیدہ فاطمہؑ کی جگہ لینے نہیں آئی؛ میں ان کے بچوں کی خدمت گزار بن کر آئی ہوں۔”
یہ الفاظ آپ کے قلبی تقوے، ولایت شناسی اور حقیقتِ خدمت کا خلاصہ تھے۔ آپ نے ثابت کیا کہ سوتیلی ماں ہونا نعمت ہے جب وہ دل سے اہلِ بیتؑ کی محبت اور خدمت کرے — منصب و عہدہ نہیں، وفا و اخلاص انسان کو عزت عطا کرتے ہیں۔
🔹 مادری احساسات کی نرمی اور قربانی:
ام البنینؑ نے ایک نادرانہ قدم اٹھایا: جب تک امام حسنؑ و امام حسینؑ بچپن میں تھے، آپ نے جان بوجھ کر اولاد نہ چاہی تاکہ فرزندانِ زہراءؑ کے حق میں کوئی کمی نہ محسوس ہو۔ اپنے اصل نام “فاطمہ” سے اجتناب بھی اسی نفاستِ احساس کا ثبوت تھا — آپ نے کہا کہ نام سن کر بچوں کے دلوں میں ماں کی یاد تازہ نہ ہو، کیوں کہ آپ نے ان کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھا۔ یہ باریک خیالی اور بلند اخلاق وہی ہے جو بڑے بڑے دل بھی کم ہی رکھتے ہیں۔
🔹 تربیتِ عباسؑ — وفا کی بنیاد:
ام البنینؑ نے اپنے بچوں کو محض ذات کے لیے نہیں، بلکہ ایک مقدس مقصد کے لیے پروان چڑھایا۔ بچپن میں عباسؑ کے کان میں یہی نصیحت دہرائی گئی کہ ان کی آنکھوں کا نور حسینؑ ہے؛ ان کی طاقت، سانسیں اور وفا سب اسی راہ میں وقف ہوں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عباسؑ نے کبھی امام حسینؑ کو “بھائی” کہا نہ، بلکہ ہمیشہ “مولایَ یا حسینؑ” کہہ کر امام کی اطاعت و محبت کا اعلان کیا۔ یہ تربیت اس قدر نافع تھی کہ کربلا میں عباسؑ کی وفاداری بے مثال نظیر بن گئی۔
🔹 کربلا — مادری امتحان اور چار بیٹوں کی شہادت:
اللہ نے آپ کو چار جگر گوشوں سے نوازا: عباس، جعفر، عبداللہ اور عثمان۔ یہ تمام بیٹے اسی روح میں پروان چڑھے کہ وہ امامِ وقت کے لیے سب کچھ قربان کر دیں۔ اور یہی ہوا — چاروں بیٹے کربلا میں شہید ہوئے۔ جب مدینہ میں ان کی شہادت کی خبر پہنچی، تو امُّ البنینؑ نے سب سے پہلے پوچھا: “حسینؑ کا کیا بنا؟” — یہ سوال بتاتا ہے کہ ان کا غم ذاتی بچوں کا کم اور امامِ وقت کی محرومی کا زیادہ تھا۔ ان کا درد، ولایت کا درد تھا؛ ان کی فریاد وحشتِ کربلا کی صدا تھی۔
🔹 کربلا کے بعد — عزاداری و صبرِ جاوداں:
شہداء کے قافلے کے واپس آتے ہی مدینہ میں سب سے پہلے امُّ البنینؑ کے گھر سے نوحہ بلند ہوا۔ آپ نے روزِ روز جنت البقیع کی خاک پر بیٹھ کر حسینؑ کے مصائب کا مرثیہ پڑھا؛ آنسوؤں نے اتنا رویا کہ روایت ہے ان کی بینائی ضائع ہو گئی۔ آپ کی نوحہ سرائی اور ماتم نے مدینہ میں کربلا کی یاد کو زندہ رکھا — وہ نوحے جن میں ماں کا صبر، دردِ عاشورا کی گہرائی اور ولایت کا پیغام ایک ساتھ ملتا تھا۔
🔹 علمی و اخلاقی مقام، فصاحت اور روایتِ احترام:
اُمُّ البنینؑ نہ صرف ایثار و شجاعت میں ممتاز تھیں بلکہ فصاحت، ادب و معرفت میں بھی بلند مقام رکھتی تھیں۔ ادیبوں اور علمائے تاریخ نے آپ کو نیک، پرہیزگار اور اہلِ بیتؑ کی سچی محبّت رکھنے والی خاتون قرار دیا۔ بزرگانِ دین نے آپ کی خدمت و وفا کو تسلیم کیا اور آپ کے مقام کو بلند لفظوں میں بیان کیا — یہی وجہ ہے کہ زینب کبریٰؑ جیسی بزرگ خاتون بھی آپ کی عیادت کرتی رہیں۔
🔹 وصال اور وارثتِ روحانی:
مختلف روایات کے مطابق آپ کی وفات چودۂ جمادی الثانی یا اسی سال کے قریب ہوئی۔ مگر آپ کی یاد، آپ کا صبر اور آپ کا پیغام آج بھی زیارات، مرثیے اور اذکار کے ذریعے زندہ ہے۔ آپ کا مزار، امتِ اہلِ بیتؑ کے لیے صبر و استقامت کا درّ کھولتا ہے۔
🔹 امُّ البنینؑ کا پیغام آئندہ نسلیں کے لیے :
اُمُّ البنینؑ ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ:
حقیقی عظمت نسب سے نہیں بلکہ شجاعتِ تقویٰ اور عملِ صالح سے حاصل ہوتی ہے۔
ولایت سے عشق وہ روشنی ہے جو انسان کو خودی کے تقاضوں سے اوپر اٹھا کر قربانی کے قابل بناتی ہے۔
ماں وہ مربی ہے جو اولاد کو جسمانی قوت کے ساتھ روحانی سمت بھی دیتی ہے۔
وفا، خدمت اور معرفت سے جو کردار بنتا ہے، وہ نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتا ہے۔
اُن کی زندگی یہ پیغام دیتی ہے کہ ایمان، وفا اور خدمتِ اہلِ بیتؑ سب سے بڑی دولت ہے — اور یہی وہ رہنما اصول ہیں جو آج کے دور میں بھی انسان کو سچائی، شجاعت اور مخلصی کی راہ دکھاتے ہیں۔









آپ کا تبصرہ