جمعہ 5 دسمبر 2025 - 12:56
جناب اُمّ البنین سلام اللہ علیہا کے فضائل و عظمت

حوزہ/جناب فاطمہ بنت حزام الکلابیہ، مشہور لقب اُمُّ البنین، وہ پاکیزہ خاتون ہیں جنہیں اللہ نے وفا، ایثار، ادب، معرفتِ ولایت اور صبر کے ایسے درجات عطا فرمائے جو تاریخِ اسلام میں بہت کم خواتین کو حاصل ہوئے۔

تحریر:مولانا سید عترت حسین (جامعہ ناظمیہ لکھنؤ)

حوزہ نیوز ایجنسی|

جناب فاطمہ بنت حزام الکلابیہ، مشہور لقب اُمُّ البنین، وہ پاکیزہ خاتون ہیں جنہیں اللہ نے وفا، ایثار، ادب، معرفتِ ولایت اور صبر کے ایسے درجات عطا فرمائے جو تاریخِ اسلام میں بہت کم خواتین کو حاصل ہوئے۔

ہم یہاں پر آپ کے چند فضائل و کمالات کی جانب اشارہ کرتے ہیں:

1. اعلیٰ نسب اور بلند کردار

آپ کا تعلق بنو کلاب قبیلے سے تھا جو شجاعت، سخاوت اور وفاداری میں عرب دنیا میں مشہور تھا۔

آپ کے والد حزام بن خالد اور والدہ ثمامہ دونوں اپنے زمانے کے بہترین عرب سرداروں میں شمار ہوتے تھے۔

2. امیرالمومنینؑ کے ادب و احترام میں بے مثال

جناب امّ البنینؑ نے امیرالمومنین علیؑ سے شادی کے بعد خود کو "کنیزِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا" سمجھا۔

انہوں نے کبھی اپنے گھروں پر حضرت زہراؑ کی جگہ لینے کی کوشش نہ کی بلکہ ہمیشہ ان کی اولاد کا احترام فرائض سے بڑھ کر کیا۔

یہی وجہ ہے کہ آپ کا وجود ادبِ ولایت کا کامل نمونہ ہے۔

3. اولادِ زہراؑ سے بے پناہ محبت

آپ اپنے بیٹوں سے زیادہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ سے محبت کرتی تھیں۔

مشہور ہے کہ جب امام حسینؑ گھر تشریف لاتے تو آپ اپنے بیٹوں سے کہتیں:

"پہلے حسینؑ کو راستہ دو، ان کا مقام تم سے بلند ہے."

یہ قول آپ کے ادب، معرفت اور سچی ولایت کا واضح ثبوت ہے۔

4. علم و حکمت کی بلند منزل

اُمّ البنینؑ انتہائی باوقار، صاحبِ بصیرت اور دانشمند خاتون تھیں۔

روایات میں ہے کہ امیرالمومنینؑ نے آپ کے علم و فہم کو دیکھتے ہوئے کہا:

"اے فاطمہ! تم اہل بیت کے محبّت اور معرفت میں کامل ہو."

5. عبّاسؑ جیسی عظیم ہستی کی تربیت

آپ نے اپنے بیٹوں میں یہ بات راسخ کردی کہ

"تمہارا امام حسینؑ ہے، تمہاری جان بھی اُس پر قربان ہو سکتی ہے."

جناب عباسؑ کی شخصیت آپ کی تربیت کی آئینہ دار ہے:

وفاداری

کربلا کا قمر آپ کے گھر کی تربیت کا ثمر ہے۔

6. کربلا پر صبر اور رضائے الٰہی

کربلا کے بعد سب سے عظیم امتحان جناب امّ البنینؑ نے دیا۔

جب خبر پہنچی کہ عباسؑ شہید ہوگئے ہیں، آپ نے سب سے پہلے یہ پوچھا:

"میرا حسینؑ کیسا ہے؟"

یہ جملہ عشقِ ولایت اور فنا فی الحسینؑ کا عظیم ترین مقام ہے۔

اپنے بیٹوں کی شہادت پر روئیں مگر حسینؑ کے مصائب نے آپ کی آنکھوں سے زیادہ آنسو بہائے۔

7. ماتمِ حسینؑ کی مؤسس

مدینہ میں جناب اُمّ البنینؑ ایک مرثیہ خوان تھیں۔

لوگ ان کے پاس آتے اور وہ کربلا کے مصائب سنا کر گریہ دیتیں۔

ان کے گھروں سے ماتم کی صدا بلند رہتی تھی۔

اس طرح آپ نے اہل مدینہ میں مصائبِ حسینیؑ زندہ رکھے اور عزاداری کو فروغ دیا۔

8. شفاعت کا درجہ

شیعہ روایات میں جناب امّ البنینؑ کو

"باب الحوائج"

کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

حاجت روائی، مشکل کشائی اور قضاءِ حوائج میں ان کی خاص قبولیت ہے۔

عوام و خواص آپ کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں اور بے شمار کرامات منقول ہیں۔

9. تواضع اور تقویٰ

جناب امّ البنینؑ نے کبھی اپنے لیے دنیاوی مقام نہیں چاہا۔

نہ کبھی اہل بیتؑ کے مقابلے میں اپنی حیثیت دکھائی۔

ہمیشہ عجز، خاکساری اور تقویٰ اختیار کیا۔

یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ جناب اُمّ البنین وہ واحد خاتون ہیں جومعرفتِ ولایت میں کامل

ادبِ اہل بیتؑ میں بے مثال

صبر و وفا میں منفرد

مادرِ قمرِ بنی ہاشمؑ

یہاں جناب اُمّ البنین سلام اللہ علیہا کے فضائل و عظمت کے ثبوت کے لئے معتبر دلائل اور تاریخی حوالہ جات مکمل تحقیق کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔

1. نسب و خاندان کے دلائل

ابن عبد ربہ، العِقد الفرید، ج 3 ص 343

ابن اثیر، اُسد الغابہ، ج 5 ص 524

ان کتب میں درج ہے کہ جناب اُمّ البنینؑ کا خاندان بنو کلاب بہادری، وفاداری اور شرافت میں عرب کے ممتاز قبائل میں شمار ہوتا تھا۔

2. امیرالمومنینؑ کا انتخاب — دلیلِ عظمت

ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج 3 ص 399

شیخ مفید، الإرشاد، ص 331

درج ہے کہ امام علیؑ نے اپنے بھائی عقیل بن ابی طالب سے فرمایا:

"مرو لی امرأةً ولدتها الفحول من العرب"

یعنی:> "ایسی عورت تلاش کرو جس کا خاندان بہادری میں مشہور ہو۔"

عقیل نے جناب فاطمہ بنت حزام الکلابیہ کو منتخب کیا۔

یہ انتخاب خود آپ کی عظمت، شرافت اور کردار کی دلیل ہے۔

3. امّ البنینؑ کا حضرت زہراؑ کے احترام میں قول

بحار الانوار علامہ مجلسی، ج 42 ص 120

الخصائص الفاطمیہ ص 302

بیان ہوا ہے کہ جب شادی کے بعد مدینہ آئیں تو کہا:"لا أدخل البيت حتى يُخبر الحسن والحسين."

ترجمہ:> "میں گھر میں داخل نہ ہوں گی جب تک حسن و حسینؑ کو خبر نہ دے دی جائے۔"

اور فرمایا:"أنا خادمة لأولاد فاطمة."> "میں فاطمہؑ کے بچوں کی خادمہ ہوں۔"

یہ قول اہل بیتؑ کے ادب کا بے مثال ثبوت ہے۔

4. اولادِ زہراؑ سے زیادہ محبت — تاریخی دلیل

ابن شہر آشوب، مناقب، ج 3 ص 399

بحار الانوار، ج 42

روایت ہے کہ اپنے بیٹوں سے کہا کرتی تھیں:

"إيّاكم أن تتقدّموا على الحسن والحسين."> "خبردار حسنؑ و حسینؑ پر آگے نہ بڑھنا، ان کا مقام بلند ہے۔"

5. قمرِ بنی ہاشمؑ کی تربیت — دلیل و حوالہ

سید محسن امین، اعیان الشیعہ، ج 7 ص 421

ابن خلّکان، وفیات الاعیان

جناب عباسؑ کی شجاعت، وفا، ادب اور غیرت کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں اور تمام مؤرخین متفق ہیں کہ یہ صفات جناب امّ البنینؑ کی تربیت کا نتیجہ تھیں۔

6. کربلا کے بعد صبر کی دلیل

اللہوف ابن طاؤس، ص 92

مقتل الحسین ابو مخنف، ص 171

کربلا کی خبر ملنے پر سب سے پہلا جملہ:"كيف حال سيدي الحسين؟"> "میرے آقا حسینؑ کا کیا حال ہے؟"

یہ جملہ فنا فی الحسینؑ کی دلیل ہے۔

7. ماتمِ حسینؑ کی مؤسس — تاریخی شواہد

شیخ عباس قمی، نَفَس المهموم

سید محسن امین، اعیان الشیعہ، ج 7 ص 423

مدینہ میں لوگ جناب امّ البنینؑ کے پاس آتے تھے اور وہ مرثیہ پڑھ کر کربلا کے واقعات پر گریہ کرتیں۔

مدینہ کے گھروں سے آپ کی وجہ سے ماتم بلند ہوتا تھا۔

ان کے سوگ کے اشعار بھی کتابوں میں نقل ہیں، جیسے:"يا من رأى العباس كرّ على جماهير النقد

وقطّعهم قطعاً كما يفلق حبّ الفند"(بحار الانوار، ج 45)

8. لقب ’’باب الحوائج‘‘ دلائل

کشف الغمّة اربلی

اعیان الشیعہ ج 7

بحار الانوار ج 43

مؤرخین نے واضح لکھا ہے:> "عامة الشيعة يتوسلون بها لقضاء الحوائج."(اعیان الشیعہ)

شیعیانِ اہل بیتؑ قدیم زمانے سے جناب امّ البنینؑ کو باب الحوائج کے مقام سے پکارتے چلے آئے ہیں، اور بے شمار حاجت روائی کی کرامات منقول ہیں۔

9. وفا، تقویٰ اور تواضع کے دلائل

بحار الانوار علامہ مجلسی

الخصائص الفاطمیہ

ان روایات میں درج ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے بیٹوں سے فرماتی تھیں:

"كلي فداء لحسين."> "میں حسینؑ پر قربان ہوں، میرے بیٹے بھی حسینؑ پر قربان ہوں۔"

یہ قول ان کے ایمان، ولایت اور تواضع کا اعلیٰ ترین ثبوت ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha